بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آلات جدیدہ یعنی ٹیلی اسکوپ سے چاند دیکھنا


سوال

آلات جدیدہ یعنی ٹیلی اسکوپ وغیرہ کے ذریعے دیکھا گیا چاند شرعاً معتبر ہے یا نہیں جس پر اعتماد کر کے  رمضان کا روزہ رکھنا یا عید منانا شرعا جائز ہے یا نہیں ؟

کیا شرعی لحاظ سے چاند کی رویت ثابت کرنے کے لئے آلات جدیدہ یعنی ٹیلی اسکوپ وغیرہ سے مدد لیے بغیر فطری طریقے سے یعنی آنکھ سے ہی چاند کو دیکھنا ضروری ہے؟

جواب

واضح ر ہے کہ   شریعت  نےمہینے کی  ابتداء و انتہاء کے معاملہ کو  بہت سہل  اور آسان ر کھا ہے اور ہر قسم کے  تکلف  سے پاک رکھا ہے تا کہ ہر زمانے اور ہر مکان کے لوگ سہولت سے اسلامی مہینوں کی ا بتدا اور انتہا کو پہچان سکیں اور احکامات روزہ، عید اور حج وغیرہ کوبجالاسکیں۔ اس سہولت کے پیش  نظر شریعت نے مہینے  کی  ابتداءاور انتہاء  کا مدار  انسانی آنکھو ں  سے   دیکھنے پر رکھا ہے  یعنی   لوگ چاند کی انتیس  تاریخ  کو آسمان کی طرف نگاہ کرکے  چاند دیکھنے کی کوشش  کریں ۔اگر نظر آجائےتو  شہادت کی شرائط  کی  رعایت رکھتے ہوئے  ان شہادوں کی بناپر  اگلے ماہ  کی  ا بتدار  مان لی جائے اور اگر نظرنہ آئے چاہے وہ بادلوں کی وجہ سے ہو یا کسی دوسری وجہ سے ہو تو تیس  دن مکمل کر لیے جائیں۔ مسلمانوں کو شریعت نے اس بات کا مکلف نہیں بنایا کہ دور بین وغیرہ کا استعمال کر کے چاند دیکھیں۔ البتہ اگر کوئی تکلف کرتا ہے اور  ٹیلی سکوپ اور دور بین کا استعمال کر کے چاند کو دیکھتا ہے تو اس صور  ت میں  اس شخص کی رویت کاشرعا اعتبار کیا جائے گا کیوں کہ ٹیلی سکوپ اور  دور بین ایسا آلہ ہے جو انسانی  نگاہ  کو تیز کر تاہے اور اس کے ذریعہ سے دیکھنا بھی انسانی آنکھ سے دیکھناہی ہے۔ لہذا جب مدار حکم پایا گیا( انسانی آنکھ سے دیکھنا ) تو پھرحکم (نئے ماہ  کی ا بتداء ) بھی  پایا جائے گا۔

بدائع  میں ہے۔

"النظر من وراء الزجاج إلى الفرج محرم، بخلاف النظر في المرآة. ولو كانت في الماء فنظر فيه فرأى فرجما فيه ثبتت الحرمة، ولو كانت على الشط فنظر في الماء فرأى فرجها لا يحرم ، كان العلة والله أعلم أن المرئي في المرآة مثاله لا هو، وبهذا علموا الحنث فيما إذا حلف لا ينظر إلى وجه فلان فنظره في المرآة أو الماء، وعلى هذا فالتحريم به من وراء الزجاج بناء على نفوذ البصر منه فيرى نفس المرئي، بخلاف المرآة والماء. وهذا ينفي كون الإبصار من المرآة ومن الماء بواسطة انعكاس الأشعة وإلا لرآء بعينه بل بانطباع مثل الصورة فيها، بخلاف المرئي في الماء لأن البصر ينفذ فيه إذا كان صافيا فيرى نفس ما فيه، وإن كان لا يراه على الوجه الذي هو عليه، ولهذا كان له خيار إذا اشترى سمكة رآها في ماء بحيث تؤخذ منه بلا حيلة وتحقيق سبب اختلاف المرئي فيه في فن آخر."

(کتاب النکاح، فصل فی بیان المحرمات ج نمبر س ص نمبر ۲۲۴، مكتبة ومطبعة مصطفلى البابي الحلبي)

امداد الفتاوی میں ہے:

"سوال: اس سال ایک شخص نے 29 تاریخ کو دور بین کے ذریعہ عید الفطر کا چاند دیکھا ہے تو کیا یہ رویت معتبر ہو گی یا نہیں؟

جواب : دوربین کے ذریعہ محض آنکھ کی روشنی میں اضافہ ہوتا ہے اور دیکھنا آنکھ ہی کے ذریعہ ہوتا ہے، لہذا اس کا حکم چشمہ کے مانند ہو گا اور اس پر رویت جس پر احکام کے جواب کا مدار ہے، صادق آتی ہے، لہذا یقینی طور پر یہ رویت صحیح، معتبر اور احکام کی بنیاد ہو گی، تاہم اگر دلائل فن سے یہ امر ثابت ہو جائے کہ اس دور بین کی خاصیت یہ ہے کہ چاند افق کے نیچے ہونے کے باوجود اس (دوربین) کے ذریعہ نظر آجاتا ہے، حتی کہ سورج افق میں طلوع نہ ہونے کے باوجود اس میں نظر آجاتا ہے تو ایسی صورت میں دور بین کے ذریعہ رویت معتبر اور صحیح نہ ہو گی لیکن ایسا ہے نہیں، اس لیے دور بین سے چاند دیکھنا چشمہ کے ذریعہ چاند دیکھنے کے مانند ہے۔"

(امداد الفتاوی جدید ، جلد 4، ص 191)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101725

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں