بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چمگادڑ پاک ہے یا ناپاک؟ / اگر چمگادڑ پانی میں گرجائے تو پانی کا حکم


سوال

 چمگادڑ پاک ہے یا ناپاک ہے ؟اور اگر یہ پانی میں گر جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

 چمگادڑ چیر پھاڑ کرکھانے والے پرندوں میں سے ہے، اس لیے اس کا کھانا حرام ہے، رہی بات اس کی بیٹ اور پیشاب کی تو وہ معاف ہے ضرورت ومجبوری کی وجہ سے، یعنی وہ فضا سے بیٹ اور پیشاب کرتی ہے اس لیے فقہاء کرام نے اسے معاف قرار دے کر نجس نہیں کہا ہے، نہ یہ کہ وہ خود حلال ہے،البتہ  چمگاد ڑاگر پانی میں گرکر مرجائے اور اس کو پھولنے اور پھٹنے سے پہلےنکال لیا جائےتو اگر مذکورہ پانی کی مقدار دہ در دہ یعنی ایک بڑے حوض سے کم ہے تو اس چمگادڑ  کے گرنے اور مرنے سے وہ پانی ناپاک  ہوجائے  گا،  اور اس کوپاک کرنا ضروری ہوگا، اگر  چمگادڑکے اجزا پانی میں باقی ہوں تو انہیں نکالنا ضروری ہوگا، جب تک وہ اجزا موجود ہوں وہ پاک نہیں ہوگا،اور اگر وہ پھولنے اور پھٹنے کے بعد نکالا گیا تو  سارا پانی ناپاک ہوجائے گا ،اور اگر اس کے  گر کر مرنے کا وقت معلوم ہوتو اس وقت سے جو نمازیں اس پانی سے وضو کرکے پڑھی گئی ہوں ان نمازوں کا اعادہ لازم ہوگا اور اگر وقت معلوم نہ ہوتو فقط مرنے کی صورت میں جب کہ پھولاپھٹا نہ ہو،  ایک دن ایک رات کی نمازوں کا، اور پھول یا پھٹ گیا ہوتو  تین دن تین رات کی نمازوں کا لوٹانا ضروری ہوگا،اور اتنے عرصے میں اس پانی سے جو کپڑے وغیرہ دھوئے انہیں دوبارہ پاک کرنا ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقيل ‌الخفاش لأنه ذو ناب(قوله وقيل ‌الخفاش) أي كذلك لا يحل فهو مبتدأ حذف خبره والقائل قاضي خان. قال الأتقاني: وفيه نظر، لأن كل ذي ناب ليس بمنهي عنه إذا كان لا يصطاد بنابه اهـ. وفي القاموس: ‌الخفاش كرمان الوطواط سمي لصغر عينيه وضعف بصره."

(کتاب الذبائح،306/6،ط:سعید)

مجمع الأنهر  میں ہے:

"وقال بعضهم: بول ‌الخفاش ليس بنجس للضرورة وكذا بول الفأرة والهرة إذا أصاب الثوب لا يفسد؛ لأنه لا يمكن التحرز."

(کتاب الطھارۃ،باب الانجاس،62/1،ط:دار احیاء التراث)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا وجد في البئر فأرة أو غيرها ولايدرى متى وقعت ولم تنتفخ أعادوا صلاة يوم وليلة إذا كانوا توضئوا منها وغسلوا كل شيء أصابه ماؤها وإن كانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاة ثلاثة أيام ولياليها وهذا عند أبي حنيفة رحمه الله."

(کتاب الطھارۃ،الباب الثالث فی المیاہ الخ،20/1،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101872

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں