بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چلتے ہوئے کاروبار میں سرمایہ لگاکر شرکت کا حکم


سوال

 زید بیٹریزکی خریدو فروخت کا کاروبار کرتا ہے ،زید نے ایک دوسرے شخص خالد سے چارلاکھ روپے لےکراسے اپنےکاروبار میں شریک کیا ہے، اور دونوں کے مابین یہ معاہدہ طے پایاکہ زید اس چار لاکھ روپے سے بیٹریاں خریدے گا،اوراس رقم کی جتنی بیٹریاں آئیں گی، زیدفی بیٹری دوسو روپے نفع خالد کو دے گا ایسامعاہدہ کرنا کیسا ہے؟

یہ نئی بیٹریاں الگ رکھ کر یعنی ان کاالگ سےحساب وکتاب رکھ کرفروخت کی جائیں یاپہلے سے موجود بیٹریوں کے ساتھ ملاکرفروخت کی جائیں؟ کیااس وجہ سے حکم میں کوئی فرق ہوگا ؟

اسی طرح فی بیٹری دوسو روپے نفع ملے گا ،آیا یہ رقم خرید کرتے ساتھ ہی دی جاۓ یافروخت ہونے کے بعد دی جاۓ؟بہر صورت حکم شرع کیا ہوگا؟مزید یہ کہ اگر یہ معاہدہ جائز نہ ہو تو خالد نے اس معاہدہ کی رو سے گزشتہ ایک سال سے جو نفع وصول کیا اس کاکیا حکم ہوگا؟اوردرست معاہدہ کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ زید کا بیٹریوں کا کاروبار پہلے سے جاری تھا، بعدازاں خالد کی جانب سے اداکردہ چار لاکھ روپے بطورِ شرکت نہیں بطورِ مضاربت شامل ہوئے ہیں،نیز خالد(سرمایہ دار)اور زید(مضارب) کے درمیان مذکورہ معاملہ میں فی بیٹری دوسو روپے نفع کی تقسیم بھی شرعاً درست نہیں ہے،کیوں کہ منافع فیصد کے حساب سے مقرر کرنا ضروری ہے،اور مضاربت کے معاملے  میں کسی بھی فریق کے لیے بطورِ نفع مخصوص رقم مقرر کرنے سے معاملہ فاسد ہوجاتا ہے، لہذا مذکورہ معاملے کے تحت خالد کا سالانہ نفع وصول کرنا بھی شرعاً درست نہیں ہے،اب مضارب(زید)  اجرتِ مثل(مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے ایک مزدور کی مزدوری) کا حق دار ہے، اور چار لاکھ کی بیٹریوں کی خرید و فروخت میں جتنا نفع نقصان ہوا ہے، وہ سرمایہ کے مالک( خالد) کا ہے۔

اس کی بہتر صورت یہ ہے کہ زید خالد کی مذکورہ بیٹریوں کی خرید و فروخت میں بطورِ مضارب کام کرے،ان بیٹریوں کو اپنی بیٹریوں کے ساتھ ملا کر فروخت کرسکتا ہے البتہ ان کا حساب کتاب اپنی ذاتی بیٹریوں سے الگ کرے، نیز دونوں آپس میں فیصد کے حساب سے نفع کی شرح مقرر کریں، نفع کی تقسیم بیٹریوں کے خریداری یا ماہانہ بنیاد پر نہ کی جائے ، بلکہ خالدکی جتنی بیٹریاں ہوں ، وہ تمام فروخت ہونے کے بعد پہلے اس کا سرمایہ چار لاکھ روپے  الگ کر کے باقی نفع سے اخراجات نکالنے کے بعد باقی جتنا نفع ہوا ہو وہ دونوں مقررکردہ شرح فیصد کے اعتبار سے تقسیم کردیں،اور اگر اس دوران کاروبار میں نقصان ہوجائے ،اور مضارب(زید) کی طرف سے تعدی(یعنی لاپرواہی اور کوتاہی) کے بغیر نقصان ہوا ہو، تو یہ اولاً  کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع سے پورا کیا جائےگا اور اگر منافع موجود نہ ہوتو سرمایہ دار(خالد) کے سرمایہ کا نقصان ہوگااورمحنت کرنے والے کی محنت ضائع ہوجائے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) الشركة بالأموال فلها شروط: (منها) أن يكون رأس المال من الأثمان المطلقة وهي التي لا تتعين بالتعيين في المفاوضات على كل حال، وهي الدراهم والدنانير، عنانا كانت الشركة أو مفاوضة عند عامة العلماء، فلا تصح الشركة في العروض، وقال مالك - رحمه الله -: هذا ليس بشرط وتصح الشركة في العروض، والصحيح قول العامة."

(كتاب الشركة، فصل في بيان شرائط انواع الشركة، ج:6، ص:59، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"الشركة إذا كانت بالمال لا تجوز عنانا كانت أو مفاوضة إلا إذا كان رأس مالهما من الأثمان التي لا تتعين في عقود المبادلات نحو الدراهم والدنانير، فأما ما يتعين في عقود المبادلات نحو العروض والحيوان فلا تصح الشركة بهما سواء كان ذلك رأس مالهما أو رأس مال أحدهما، كذا في المحيط ... والحيلة في جواز الشركة في العروض وكل ما يتعين بالتعيين أن يبيع كل واحد منهما نصف ماله بنصف مال صاحبه حتى يصير مال كل واحد منهما نصفين وتحصل شركة ملك بينهما ثم يعقدان بعد ذلك عقد الشركة فيجوز بلا خلاف، كذا في البدائع ولو كان بينهما تفاوت بأن تكون قيمة عرض أحدهما مائة وقيمة عرض صاحبه أربعمائة يبيع صاحب الأقل أربعة أخماس عرضه بخمس عرض الآخر فصار المتاع كله أخماسا، كذا في الكافي، وكذلك إذا كان لأحدهما دراهم وللآخر عروض ينبغي أن يبيع صاحب العروض نصف عروضه بنصف دراهم صاحبه ويتقابضان ثم يشتركان إن شاءا مفاوضة، وإن شاءا عنانا، كذا في المحيط."

(كتاب الشركة، الباب الثاني، الفصل الاول، ج:2، ص:307، ط:دارالفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) القسم الذي للمضارب أن يعمله إذا قيل له: اعمل برأيك وإن لم ينص عليه، ‌فالمضاربة ‌والشركة ‌والخلط، فله أن يدفع مال المضاربة مضاربة إلى غيره، وأن يشارك غيره في مال المضاربة شركة عنان، وأن يخلط مال المضاربة بمال نفسه، إذا قال له رب المال: اعمل برأيك وليس له أن يعمل شيئا من ذلك، إذا لم يقل له ذلك أما المضاربة فلأن المضاربة مثل المضاربة ... وكذا له أن يخلط مال المضاربة بمال نفسه؛ لأنه فوض الرأي إليه، وقد رأى الخلط وإذا ربح قسم الربح على المالين، فربح ماله يكون له خاصة، وربح مال المضاربة يكون بينهما على الشرط."

(كتاب المضاربة، فصل في بيان حكم المضاربة، ج:6، ص:95 تا 97، ط:دارالكتب العلمية)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"وإذا أراد القسمة، ‌بدأ ‌برأس ‌المال، فأخرج من المال، وجعلت النفقة مما بقي، فإن بقي من ذلك شيء، فهو الربح يقسم بين المضارب ورب المال على ما اشترطا."

(كتاب المضاربة، باب نفقة المضارب، ج:22، ص:64، ط:دارالمعرفة)

وفيه ايضا:

"الربح بعد انتهاء العقد بوصول رأس المال إلى يد رب المال، أو إلى يد وكيله، فأما مع بقاء المال في يد المضارب، وقيام عقد المضاربة فلا يصح قسمة الربح بينهما."

(كتاب المضاربة، باب نفقة المضارب، ج:22، ص:105، ط:دارالمعرفة)

تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وما هلك من مال المضاربة فمن الربح)؛ لأنه تابع ورأس المال أصل لتصور وجوده بدون الربح لا العكس فوجب صرف الهالك إلى التبع لاستحالة بقائه بدون الأصل كما يصرف الهالك العفو في الزكاة قال - رحمه الله - (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد".

(کتاب المضاربة،باب المضارب یضارب،ج:5،ص:67،ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں