بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چلتی ٹرین کی دو بوگیوں میں اتصال کا حکم


سوال

چلتی ہوئی  ٹرین کے مربوط دو ڈبوں میں سے دوسرے ڈبے والوں کی اقتدا درست ہوگی یا نہیں؟

مطلب ٹرین کے ڈبوں کو جو جوڑا جاتا ہے اور بیچ میں دروازہ کھلا رکھا جاتا ہے جس میں سے ایک ڈبے میں سے دوسرے ڈبے میں آمد و رفت با آسانی ہوسکتی ہے، تو اگر اس میں با جماعت پڑھتے ہوئے امام اگلے ڈبے میں نماز پڑھا رہا ہو تو پچھلے (دوسرے) ڈبے والوں کی اقتدا درست ہوگی؟ 

جواب

واضح رہے کہ اقتدا کے درست ہونے کے لیے فقہاء نے جو شرائط ذکر کی ہیں اُن میں سے چند شرائط یہ ہیں:

1۔امام اور مقتدی کی جگہ  کا متحد ہونا، خواہ حقیقتاً متحد ہوں یا حکماً۔

2۔مقتدی کو یہ معلوم ہونا کہ امام کس حالت میں ہے۔

3۔ امام اور مقتدی کا نماز کے ارکان کی ادائیگی میں مشترک ہونا۔

صورتِ مسئولہ میں اگر چلتی ہوئی ریل گاڑی کی ایک بوگی میں امام ہو تو دوسری بوگی میں  موجود لوگوں کی نماز پہلے بوگی میں موجود امام کے پیچھے درست  ہوگی، بشرط یہ کہ صفیں  متصل  ہوں، اور امام کی حالت دوسری بوگی میں موجود لوگو ں پر مشتبہ نہ ہو، اور نماز درست  ہونے کی شرائط (مثلاً  قبلہ رخ ہونا، رکوع ، سجدے پر قادر شخص کے لیے رکوع سجدہ کرنا وغیرہ) پائی جائیں ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"والصغرى ربط صلاة المؤتم بالإمام بشروط عشرة: نية المؤتم الاقتداء، واتحاد مكانهما وصلاتهما وعلمه بانتقالاته...ومشاركته في الأركان...

(قوله واتحاد مكانهما) فلو اقتدى راجل براكب أو بالعكس أو راكب براكب دابة أخرى لم يصح لاختلاف المكان؛ فلو كانا على دابة واحدة صح لاتحاده كما في الإمداد...وأما إذا كان بينها حائط فسيأتي أن المعتمد اعتبار الاشتباه لا اتحاد المكان، فيخرج بقوله وعلمه بانتقالاته ...(قوله وعلمه بانتقالاته) أي بسماع أو رؤية للإمام أو لبعض المقتدين رحمتي وإن لم يتحد المكان...(قوله ومشاركته في الأركان) أي في أصل فعلها أعم من أن يأتي بها معه أو بعده لا قبله، إلا إذا أدركه إمامه فيها، فالأول ظاهر، والثاني كما لو ركع إمامه ورفع ثم ركع هو فيصح، والثالث عكسه فلا يصح إلا إذا ركع وبقي راكعا حتى أدركه إمامه، فيصح لوجود المتابعة التي هي حقيقة الاقتداء."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:549-551، ط: سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين)...

(قوله يسع صفين) نعت لقوله خلاء، والتقييد بالصفين صرح به في الخلاصة والفيض والمبتغى. وفي الواقعات الحسامية وخزانة الفتاوى: وبه يفتي إسماعيل، فما في الدرر من تقييده الخلاء بما يمكن الاصطفاف فيه غير المفتى به...(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية ولو من باب مشبك يمنع الوصول في الأصح (ولم يختلف المكان) حقيقة كمسجد وبيت في الأصح قنية، ولا حكما عند اتصال الصفوف."

(كتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:586، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں