بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چلتے ہوئے کا روبار میں رقم لگانا


سوال

میں کسی شخص کے ساتھ اُس کے کاروبار میں رقم لگاتا ہوں نفع نقصان کی بنیاد پر لیکن اُس کے ساتھ خود کام نہیں کرتا صرف رقم لگاتا ہوں یہ سود تو نہیں ہوگا؟

جواب

1۔اگر آپ کسی کے کاروبار میں رقم لگاتے ہیں اور وہ شخص آپ کی متعین  رقم سے  اپنے پُرانے کاروبار سے علیحدہ کسی اور چیز کی خرید وفروخت شروع  کرتا ہے یا اپنے ہی کاروبار میں اس رقم سے خریدی گئی اشیاء کا حساب وکتاب اپنے کاروبار سے علیحدہ رکھتا ہے،تو یہ شرعی اعتبار سے مضاربت ہے۔جس میں نفع فیصد کے اعتبار سے طے کیاجائے گا،اور نقصان کی صورت میں نقصان کی تلافی سب سے پہلے دونوں کے نفع سے کی جائے،اس کے بعد (اگر نقصان زیادہ ہوگیا ہے تو)نقصان کی تلافی سرمایہ کار کے مال سے کی جائے گی،اور محنت کرنے والے کی محنت رائیگاں جائے گی۔

2۔اگر چلتے ہوئے کاروبار میں وہ شخص آپ کی رقم اپنے پاس رکھ کر آپ کو  آپ کی رقم کے تناسب سے اپنے کاروبار کے اثاثے  آپ کو فروخت کردے،پھر  جب دونوں کا مشترک مال فروخت ہوجانے کے بعد رقم وصول ہوجائے تو اس رقم میں شرکت کا معاملہ کرلیں،اس طرح آپ اور وہ مذکورہ شخص کاروبار اور سرمایہ میں شریک ہوجائیں گے،اس صورت میں  نفع کا تناسب فیصد سے طے کرنا ضروری ہے،بشرط یہ کہ نفع میں آپ کا حصہ آپ کے مال کے تناسب سے زیادہ نہ ہو، جب کہ نقصان ہوجانے کی صورت میں ہر ایک شریک اپنے مال کے تناسب سے نقصان برادشت کرے گا۔

پہلی صورت آپ کے کام نہ کرنے کی بنیاد پر ہے،جبکہ دوسری صورت میں آپ کام نہ کریں تب بھی جائز ہے،لیکن کوئی بھی صورت سود نہیں ہے۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 1428) - (يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما فلا يعتبر ذلك الشرط) . يعود الضرر والخسار في كل حال على رب المال إذا تجاوز الربح إذ يكون الضرر والخسار في هذا الحال جزءا هالكا من المال فلذلك لا يشترط على غير رب المال ولا يلزم به آخر. ويستفاد هذا الحكم من الفقرة الثانية من المادة الآنفة وإذا شرط أن يكون مشتركا بينهما أو جميعه على المضارب فلا يعتبر ذلك الشرط."

(الکتاب العاشر الشرکات،الباب السابع في حق المضاربة،الفصل الثالث في بيان أحكام المضاربة،ج3،ص459،ط؛دار الجیل)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"إذا كان المال الذي هو من قبيل العروض والعقار ملكا لأحد فإذا باع نصفه لآخر فلهما أن يعقدا الشركة على مالهما المشترك هذا (رد المحتار)."

(کتاب الشرکات،ج3،ص356،ط؛دار الجیل)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"و (مع التفاضل في المال دون الربح وعكسه، وببعض المال دون بعض، وبخلاف الجنس كدنانير) من أحدهما (ودراهم من الآخر، و) بخلاف الوصف كبيض وسودوإن تفاوتت قيمتهما والربح على ما شرطا...

(قوله: ومع التفاضل في المال دون الربح) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله وعكسه: أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال.

قلت: والظاهر أن هذا محمول على ما إذا كان العمل مشروطا على أحدهما.

وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط؛ وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اهـ ما في النهر."

(کتاب الشرکۃ،ج4،ص312،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101836

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں