بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چلتے ہوئے کاروبار پر ماہانہ کمیشن لینے کا حکم


سوال

ہمارا پیشہ ہوٹلز سے وابستہ ہے، ہم کسی ہوٹل پر خرچہ کرکے اس کو کامیاب کرتے ہیں، پھر چالو کاروبار کوکسی پارٹی کو ٹھیکہ پر دیتے ہیں، یعنی ماہانہ 2 لاکھ ان سے وصول کرتے ہیں، جب کہ کرایہ اور بل وغیرہ ان کے اصل مالک کو دیتے ہیں، ہم صرف چالو کاروبار دینے کے ماہانہ 2 لاکھ روپیہ ان سے لیتے ہیں، کیا شرعا اس طرح کاروبار جائز ہے اور اس میں کوئی خرابی تو نہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے یہ جائز نہیں ہےکہ چلتا ہوا کاروبار کسی پارٹی کو ٹھیکہ پر دے کر اس سے ماہانہ کمیشن لے، البتہ اگر سائل ہوٹل اصل مالک سے کرایہ پر لے کر اس پر  خرچہ کرے، سامان لگائے اور پھر  ہوٹل بمع سامان اس سے زیادہ کرایہ پر  آگے مالک کی اجازت سے کسی پارٹی  کو دےدے تو زائد کرایہ کی رقم لینا سائل کے لیے جائز  ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولو أجرها المستأجر بأكثر من الأجرة الأولى فإن كانت الثانية من خلاف جنس الأولى طابت له الزيادة، وإن كانت من جنس الأولى لا تطيب له حتى يزيد في الدار زيادة من بناء أو حفر أو تطيين أو تجصيص.

فإن لم يزد فيه شيئا فلا خير في الفضل ويتصدق به، لكن تجوز الإجارة".

(كتاب الإجارة، فصل :وأما حكم الإجارة4/ 206، ط: سعید)

 

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة".

(كتاب الإجارة الباب السابع في إجارة المستأجر 4/ 425 ط:رشيدية)

الدر المختار   میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف".

(حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، 4/ 518، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100673

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں