بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا چلتی گاڑی میں نماز ہوتی ہے؟


سوال

چلتی گاڑی میں نماز  ہوتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ تندرست شخص کی فرض نماز  صحیح ہونے کے  لیے  قیام  ضروری ہے  اور قبلہ رو ہونا بھی ضروری ہے اور گاڑی میں نہ تو  قیام ممکن ہے اور  نہ  ہی مستقل قبلہ رو ہونا آسان ہے، اس  لیے فرض نماز گاڑی میں ادا نہیں کی جا سکتی۔

 لہذا  فرض نماز کے  لیے گاڑی رکوا کر اتر کر ہی نماز ادا کی جائے، اگر کسی نے چلتی کار، وین وغیرہ میں قیام کے بغیر یا قبلہ کا رخ کیے بغیر فرض نماز ادا کرلی تو اس کو دہرانا لازم ہے۔

"بس" کے بارے میں ذرا تفصیل ہے کہ اگر شہر  سے باہر لمبا سفر ہو اور بس ڈرائیور کہنے کے باوجود بس نہ روکے اور نماز کا وقت نکل رہا ہو، تو دیکھا جائے گا کہ اگر بس کے اندر  قبلہ رُخ ہوکر قیام، رکوع اور سجدے کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے تو اس طرح نماز ادا کرے۔ چنانچہ اگر بس قبلہ رخ چل رہی ہو یا مخالف سمت جارہی ہو اور سیٹوں کے درمیان فاصلہ ہو تو قیام، رکوع اور سجود کے ساتھ نماز ادا کی جاسکتی ہے، اس صورت میں اگرقیام (کھڑے ہونے) کے لیے سہارا لینا پڑے تو اس کی اجازت ہوگی، اگرپورے قیام کے دوران سہارا لینا پڑے اور ہاتھ نہ باندھ سکے تب بھی قیام نہ چھوڑے ، سہارا لے کرقیام ، رکوع اورسجدےکے ساتھ نماز ادا کرے۔ اگر بس کے زیادہ حرکت کرنے یاچکرآنے کی وجہ سے قیام نہ کرسکے تواسی راہ داری میں بیٹھ کربس کے فرش(زمین) پرسجدہ کرتے ہوئے نماز اداکرے، البتہ اگر بس شمالاً  جنوباً  (پاکستان وغیرہ میں) جارہی ہو تو یہ کیا جاسکتا ہے  کہ سیٹ کی  طرف رخ کر کے  قیام اور رکوع کیا جائے اور سجدے کے لیے سیٹ پر بیٹھ کر سامنے والی سیٹ پر سجدہ کرلیا جائے۔

اور  اگر بس میں مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو  (مثلاً: قیام ہی ممکن نہ ہو، یا قیام تو ممکن ہو لیکن قبلہ رخ نہ ہوسکے، یا سجدہ نہ کیا جاسکتاہو، یا کار وغیرہ کا ڈرائیور گاڑی  نہ روکے) اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرتے ہوئے نماز پڑھ لے ، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔

باقی نفل نماز سواری  میں بیٹھ کر پڑھنے کا حکم درج ذیل ہے:

کسی شہر  یا بستی کی آبادی کے مکانات سے نکلنے کے بعد  دورانِ سفر  جس رخ پر سواری جارہی ہو اس رخ پر نفل نماز پڑھنا  مطلقاً جائز ہے، خواہ قبلہ رو ہو یا نہ ہو،  مگر اس سے وہ سواری مراد ہے جس میں چلتے ہوئے قبلہ رخ نماز پڑھنے کی رعایت نہ رکھی جاسکتی ہو، جیسے اونٹ اورکار  وغیرہ؛ لیکن اگر سواری وسیع ہو، جیسے: ریل تو اس میں نمازِ نفل کے لیے بھی قبلہ رخ ہونا ضروری ہوگا؛ کیوں کہ اس میں قبلہ کا لحاظ کرنا متعذر نہیں ہے۔ باقی شہر کی حدود کے اندر  سواری پر نفل پڑھنا جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 42):

"(وأما في النفل فتجوز على المحمل والعجلة مطلقاً).

(قوله: مطلقاً) أي سواء كانت واقفةً أو سائرةً على القبلة أو لا، قادر على النزول أو لا، طرف العجلة على الدابة أو لا، ح".

الفتاوى الهندية (1/ 63):

"ومن أراد أن يصلي في سفينة تطوعاً أو فريضةً فعليه أن يستقبل القبلة، ولا يجوز له أن يصلي حيثما كان وجهه. كذا في الخلاصة. حتى لو دارت السفينة وهو يصلي توجه إلى القبلة حيث دارت. كذا في شرح منية المصلي لابن أمير الحاج".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 38):

"(و) يتنفل المقيم (راكباً خارج المصر) محل القصر (مومئاً) فلو سجد اعتبر إيماء؛ لأنها إنما شرعت بالإيماء (إلى أي جهة توجهت دابته)، ولو ابتداءً عندنا أو على سرجه نجس كثير عند الأكثر، ولو سيرها بعمل قليل لا بأس به".

(قوله: ويتنفل المقيم راكباً إلخ) أي بلا عذر، أطلق النفل فشمل السنن المؤكدة إلا سنة الفجر، كما مر، وأشار بذكر المقيم أن المسافر كذلك بالأولى؛ واحترز بالنفل عن الفرض والواجب بأنواعه كالوتر والمنذور، وما لزم بالشروع، والإفساد، وصلاة الجنازة، وسجدة تليت على الأرض، فلا يجوز على الدابة بلا عذر؛ لعدم الحرج، كما في البحر. (قوله: راكباً) فلا تجوز صلاة الماشي بالإجماع، بحر عن المجتبى. (قوله: خارج المصر) هذا هو المشهور. وعندهما يجوز في المصر، لكن بكراهة عند محمد؛ لأنه يمنع من الخشوع، وتمامه في الحلية. (قوله: محل القصر) بالنصب بدل من خارج المصر. وفائدته شمول خارج القرية وخارج الأخبية ح: أي المحل الذي يجوز للمسافر قصر الصلاة فيه، وهو الصحيح، بحر. وقيل: إذا جاوز ميلاً، وقيل: فرسخين أو ثلاثة، قهستاني".  

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأسیر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالی لاتجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة".

 (البحر الرائق، الکتاب الطهارة، باب التیمم، رشیديه ۱/ ۱۴۲)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200843

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں