بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چھالیہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کی صورت میں رشوت دینے کا حکم


سوال

میرا سوال ایک فتویٰ کے متعلق ہے جس میں سائل نے چھالیہ (سپاری) کے بارے میں سوال کیا تھا جس کا جواب آپ نے یہ دیا تھا۔۔۔۔ فتوی نمبر : 144107200993" چھالیہ (سپاری) کا کاروبار فی نفسہ جائز ہے، لہذا ایک شہر سے چھالیہ خرید کر کسی اور شہر میں فروخت کرنا جائز ہے، البتہ اگر قانونی طور پر اس کی ممانعت ہو تو اس کی پاس داری کی جائے؛ تاکہ عزتِ نفس محفوظ رہے۔" الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 460): اب میرا سوال یہ ہے کہ انہی  چھالیہ کو ایک شہر سے دوسری شہر منتقل کرنے کے لئے راستے میں 4 سے 5 پولیس چوکیوں پر آپ  سے  پیسے بطور رشوت لیا جاتاہے اور جو بھی اس کاروبار میں جاتاہے اس کو پتا بھی ہے کہ اس میں رشوت لازمی دینا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہیکہ اس طرح رشوت دینا جائز ہے؟ اگر رشوت نہ دیا جائے تو وہ آپ کو چھوڑتے نہیں ہے ۔ تو کیا اس صورت میں یہ کاروبار کیا جاسکتا ہے؟ اور رشوت بھی مجبوری میں  دے  سکتے  ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ چھالیہ کا کاروبار فی نفسہ جائز ہے،  لیکن قانونی طور پر منع ہے؛ لہذا قانون کی پاسداری کرنی چاہیے؛ تاکہ عزت نفس محفوظ رہے  صورت مسئولہ میں چھالیہ کے کاروبار سے احتراز کرکے  کوئی اور کاروبار اختیار کرنا چاہیے نیز اگر پہلے سے یہ معلوم ہے کہ چھالیہ  ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرتے وقت حکومتی  افسران رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں تو جان بوجھ کر ایسا کاروبار نہیں کرنا چاہیے ،کیوں کہ  رشوت کا لین دین شرعًا جائز نہیں ؛اور  مذکورہ کام کرتے ہوئے افسران کے لیے بھی   رشوت لینا  جائز نہیں ہے۔

الدرا لمختار  میں ہے:

"و الحاصل أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع."

(کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد جلد 5 ص: 69 ط: دارالفکر)

رد المحتار  میں ہے:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول

قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه

(قوله ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه."

(کتاب الأشربة جلد 6 ص: 460 ط: دارالفکر)

تفسير قرطبي ميں هے:

"[ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة]الآية: 195

التقدير ‌لا ‌تلقوا أنفسكم بأيديكم، كما تقول: لا تفسد حالك برأيك. والتهلكة (بضم اللام) مصدر من هلك يهلك هلاكا وهلكا وتهلكة، أي لا تأخذوا فيما يهلككم

وقال الطبري: قوله" ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة" عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه، إذ اللفظ يحتمله."

(البقر: 195 جلد 2 ص: 363 ط: دارلكتب المصرية)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144501101660

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں