بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

40 سال پرانی مسجد کو گراکر سکول بنانا


سوال

 ہمارے محلے لٹی ریلوے کیمپ میں مسلم مسجد ہے، جس میں 35-40  سال با جماعت پانچ وقت نمار، نماز جمعہ، نماز تراویح  ادا کی گئی ہے۔ اورمحلے کے بچوں اور بچیوں کو قرآن کریم کی تعلیم بھی دی جاتی تھی پھر حکومت نے اس مسجد میں ایک مکتب کھولا ، بعد میں نمازیوں کے لئے جگہ کم پڑنے پر آٹھ دس قدم پر مسلم مسجد کے نام پر دوسری مسجد تعمیر کی گئی، اب سرکار اس پرانی مسجد کی عمارت کو گرا کر اسکول تعمیر کرنا چاہتی  ہے، جس کی مسجد کمیٹی اجازت نہیں دے رہی ہے اور کچھ اہل علاقہ بھی مسجد کی عمارت کو اسکول میں بدلنے پر راضی نہیں ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اس مسجد کو منہدم کرا کر اس کی جگہ اسکول بنایا جا سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو اور اہلِ علاقہ کسی خالی سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کریں اور اس میں کئی سال تک باقاعدہ پنج وقتہ نماز یں و جمعہ ادا کی جاتی رہیں اور اتنے سالوں تک حکومت کی طرف سے ان مساجد کے قیام و تعمیر پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا گیا تو ایسی تمام مساجد   مسجدِ شرعی کا  حکم رکھتی ہیں، اور وہ مقامات تا قیامت مسجد کے حکم میں ہیں، ان کو گرانا یا ان کی جگہوں پر مسجد کے علاوہ کوئی اور  عمارت بنانا شرعاً جائز نہیں، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ مسجد  کو منہدم کر کے اس کی جگہ سکول بنا نا شرعا جائز نہیں۔  

البحر الرائق میں ہے:

"أشار بإطلاق قوله: و يأذن للناس في الصلاة أنه لايشترط أن يقول: أذنت فيه بالصلاة جماعة أبداً، بل الإطلاق كاف ... و قد رأينا ببخارى و غيرها في دور سكك في أزقة غير نافذة من غير شك الأئمة و العوام في كونها مساجد ... بني في فنائه في الرستاق دكاناً لأجل الصلاة يصلون فيه بجماعة كل وقت فله حكم المسجد".

(كتاب الوقف، فصل في أحكام المساجد، ٥/ ٢٤١ - ٢٥٠، ط: رشيدية)

شامی میں ہے:

"( ولو خرب ما حوله و استغني عنه يبقي مسجداً عند الإمام و الثاني) أبداً إلى قيام الساعة (و به يفتي)، حاوي القدسي".

(كتاب الوقف، مطلب في وجوب المسجد و غيره، ٤/ ٣٥٨، ط: سعيد)

وفيه أيضا:

"و إن بني للمسلمين كمسجد و نحوه... لاينقض".

(كتاب الوقف، ٦/ ٥٩٣، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں