بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چالیس سالہ خاتون کا طلاق کی عدت کے دوران حیض منقطع ہو جائے اس کا حکم


سوال

 ایک خاتون ہیں جن کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہوگئی، وہ اپنے شوہر سے قریب دس سال سے الگ رہ رہی ہیں ،شوہر بہت ہی ظالم ہے اور طلاق بھی نہیں دے رہا تھا، ابھی خاتون نے بہت ہی مشکل سے اس سے خلع لیا ہے اور ان خاتون کی عدت چل رہی ہے، ایک حیض بھی آچکا ہے، لیکن ایک حیض آنے کے بعد دو تین ماہ سے زیادہ ہو گیا ہے ان کو حیض نہیں آیا اور خاتون کو بہت جلد نکاح کرنا ہے ،کیوں کہ ان خاتون کا طلاق سے پہلے بہت بڑا آپریشن ہوا ہے اور ڈاکٹر نے کہا تھا آپ کو  جلد سے جلد بچہ پیدا کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا ورنہ یہ گاٹھے یعنی گوشت کا بڑھنا پھر سے شروع ہو جائے گا اور آپ کو اس سے بھی بڑا آپریشن کروانا پڑے گا اب سمجھ نہیں آرہا ہے کہ  کیا کیا جائے اور ڈاکٹر سے ایسی دوا کے بارے میں معلوم کیا تو انہوں نے کہا آپکے پیٹ میں انڈے ہی نہیں بن رہے ہیں جن کی وجہ سے حیض آتا ہے اور اگر  آپ کچھ ایسی دوا کھاتی ہوا تو آپ کا وہ مرض جس کا آپریشن کروایا  ہے پھر شروع ہو جائے  گا ،اب سمجھ نہیں آرہا ہےکہ  کیا کریں، عدت کی مدت پوری کیسے کریں؟ اگر زیادہ وقت رکیں گے تو بیماری پھر شروع ہو جاے گی، خاتون کے ماں باپ بھی نہیں ہیں ایک چھوٹا بھائی اور بہن ہیں آپ بتائیں کیا  کیا جائے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ خاتون اول ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کرے اور کسی تدبیر سے کوشش کی جائے کہ 3 حیض کے ذریعہ عدت مکمل ہوجائے،اگر  کوئی تدبیر مفید نہ ہو تو   ایک سال کی مدت عدت گذارنا لازم آئے گی اور اگر اس دوران دوبارہ حیض آ جائے تو تین حیض شمار کر کے عدت مکمل کی جائے۔

النہر الفائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

"التي حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ.قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة."

(کتاب الطلاق، باب العدۃ، ج:2، ص:476، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إن كانت آيسة فاعتدت بالشهور، ثم رأت الدم انتقض ما مضى من عدتها، وعليها أن تستأنف العدة بالحيض ومعناه إذا رأت الدم على العادة؛ لأن عودها يبطل الإياس هو الصحيح كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر، ج:1، ص:529، ط:رشیدیه)

احسن الفتاوی میں ہے :

"اگر سنِ ایاس سے قبل عدت کی نوبت آجائے تو بذریعہ علاج حیض جاری کرکے تین حیض عدت پوری کرے،اگر کسی علاج سے بھی حیض جاری  نہ ہو تو بوقتِ ضرورت کسی مالکی قاضی سے ایک سال کی  عدت کا فیصلہ کرایا جائے،اگر مالکی قاضی میسر نہ ہو اور ضرورتِ شدیدہ ہوتو بدونِ قضا بھی ایک سال کی عدت کا فتوی دیا جاسکتا ہے۔"

(ج:4،ص:436،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں