بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چا رہزار افراد پر مشتمل گاؤں میں جمعہ کا حکم


سوال

 ہمارے گاؤں کی آبادی     میں تقریباً چار ہزار افراد ہیں لیکن اس میں جمعہ کی شرائط نہیں  پا ئی جاتیں  ہیں۔اس میں کوئی ہسپتال نہیں ،تھانہ،ڈاکخانہ،عدالتی نظام ، ہائی اسکول، گو شت ،جو تے وغیرہ کی دکانیں اور بازار نہیں۔ صرف دوغیر مستند ڈاکٹرز ، کریانےکی 10, 12 دکانیں مختلف جگہوں پر اورضرورت کی تھوڑی بہت چیزیں ملتی ہیں ، ایک بڑی مسجد اور تقریباً پانچ چھوٹی مساجد ہیں جن میں جمعہ اور عیدین کے علاوہ  10،12بندوں سے زیادہ نہیں ہوتےلیکن اس کےباوجود تقریباً 50 سال سے جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھائی جاتی ہیں ، میں خود جمعہ کی نماز میں شریک نہیں ہوتاتولوگ ملامت کرتے ہیں، پولیس تھانہ اورچوکی کوئی نہیں ہے ،اس کےعلاوہ بھی شہروالی سہولیات نہیں، ایسی صورت میں جمعہ واجب ہے کہ نہیں اور مجھے جمعہ اور عیدین میں شریک ہونا چاہیے کہ نہیں ،نہ ہونے میں لوگ ملامت کرتے ہیں ضروریات زندگی کے لئے لوگوں سے بھری 2،3 گاڑیاں روزانہ شہر جاتی ہیں،کاروبار کےلئے اکثر لوگ شہروں میں رہتےہیں،مہر بانی فرماکر جواب عنایت فرمائیں ۔

جواب

 صورت مسئولہ میں جب گاؤں کی آبادی چار ہزار افراد پر مشتمل ہے،اور عمو ماًچار ہزار آبادی پر مشتمل گاؤں بڑے قریہ میں شمار ہو تا ہے،اور بڑے گاؤں میں جمعہ واجب ہوتا ہے ، مزید یہ کہ وہاں 50 سال سے جمعہ اور عیدین کی نماز  جاری ہے،تو ایسی صورت میں وہاں جمعہ اور عیدین کی نماز قائم کرنا درست ہےاور  اگرسائل جمعہ کے دن وہاں موجود ہوتو  جمعہ میں شریک ہو جائے۔  

فتاوی شامی میں ہے:

"تقع ‌فرضا ‌في ‌القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة."

(کتاب الصلوۃ،باب الجمعۃ،ج2،ص138،ط:ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

" أما ‌المصر ‌الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها."

(کتاب الصلوۃ، باب الجمعۃ،ج1،ص259،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"محققین کی تحقیق یہ ہے کہ جو قریہ مثل چھوٹے قصبہ کے ہو مثلاً تین چار ہزار آدمی اس میں آباد ہوں وہ قریہ کبیرہ ہے اور جو اس سے کم ہو وہ چھوٹا ہے۔"

(کتاب الصلوۃ ج:۱،ص:۲۹۴ ط:دارالاشاعت)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے: 

"سوال :موضع سوجڑو  وضلع مظفر نگر میں تقریبا تین ہزار مردم شماری یا کچھ کم ہے اور بازار اس موضع میں نہیں ہے اور کوئی سودا وغیرہ یا دوا بھی نہیں ملتی اور موضع کو شہر سے فصل کوس سوا کوس کا ہے ایسے دیہات میں جمعہ جائز ہے یا نہیں ۔

الجواب: شامی میں تصریح کی ہے کہ قصبہ اور بڑے قریہ میں جمعہ صحیح ہے عبارت اس کی یہ ہے"تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرةالخ" پس قریہ مذکورہ بظاہر قریہ کبیرہ کہ آبادی اس کی تین ہزار کے قریب ہے ، لہذا جمعہ پڑھنا اس میں واجب ہے اور صحیح ہے۔"

(کتاب الصلوۃ،الباب الخامس عشر: فی صلوۃ الجمعۃ ج:5،ص:62،ط: دار الاشاعت)

وفیہ ایضا:

"سوال:موضع رلبدھنہ میں دوہزار آٹھ سو آبادی ہے اور یہاں پر پیٹھ لگتی ہے یعنی کل چیزیں تو فروخت نہیں ہوتی ہاں نمک مرچ ترکاری بکتی ہے ۔سولہ دکانیں نمک مرچ گڑ چاول والوں کی کہیں آباد ہیں ایک جگہ پر بازار کی شکل میں نہیں ، چار مسجدیں اس جگہ ہیں اور دو مسجدوں میں جمعہ ہوتا ہے ۔ اب فرمائیے کہ یہ قصبہ کا حکم رکھتا ہے یا گاؤں کا ؟

الجواب:آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ موضع رلبدھنہ میں قریب تین ہزار آدمیوں کے آباد ہیں ، بندہ کے خیال میں وہ بڑا قریہ ہے اور شامی میں لکھا کہ بڑے قریہ میں جمعہ واجب الاداءہوتا ہے ۔ عبارت اس کی یہ ہے"وتقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق الخ" اگر چہ موضع مذکور میں بازار نہیں ہے مگر باعتبار آبادی کے اس کو ملحق بالقصبہ کرسکتے ہیں ۔"

(کتاب الصلوۃ ، الباب الخامس عشر: فی صلوۃ الجمعۃ ج:5،ص:128،129 ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں