بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چلی جاؤ،آزاد کردوں گا،کچھ وقت مجھ سے دور رہو،کے الفاظ سے طلاق کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ،اگر کسی شوہر نے آپس میں   جھگڑے کے  دوران اپنی بیوی کو مختلف اوقات میں    غصہ میں ایسا کہا کہ، آپ چلی جاؤ ،میں آپ کے ساتھ گھر میں  نہیں رہوں گا۔

2)  اور ایک مرتبہ زوجہ نے کہا اس گھر میں میری کوئی اہمیت نہیں،اور مجھے کوئی آزادی نہیں تو شوہر نے کہا؛ کیا آپ آزادی چاہتی ہو، نجات چاہتی ہو ،اگر آپ آزادی اور نجات چاہتی ہو تو آپ کو آزاد کر دوں گا؛ اس کے بعد زوجہ نے جواب دیا میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔

3) اور ایک مرتبہ شوہر نے اپنے بیوی کو کہا میں اپنے بچوں کو لے  کر یہاں سے چلا  جاؤں  گا ،آپ کو نہیں لے جاؤں گا ،؛ کچھ وقت آپ مجھ سے دور رہو؛۔

اور ان تمام واقعات کے وقت  طلاق کا مذاکرہ نہیں تھا، اور اس کے بعد شوہر سے نیت کے بارے میں دریافت کیا گیا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی قسم اٹھا  کر کہا کہ کسی وقت اس نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں  ادا کیے ، اب مفتیان کرام سے یہ جاننا مقصود ہے کہ ان دونوں کے درمیان نکاح باقی ہے یا طلاق واقع ہو گئی ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا بیان اگر واقعۃً درست ہے کہ ان واقعات میں سائل کی طلاق کی نیت نہیں تھی،لہذا پہلا جملہ کہ ؛آپ چلی جاؤ؛ سےکوئی  طلاق واقع نہیں ہوگی۔

2)دوسری صورت میں کہ سائل نے کہا کہ ؛آپ آزادی چاہتی ہو ،میں آزاد کردوں گا؛ یہ الفاظ   آئندہ مستقبل میں طلاق دینے کی دھمکی کے ہیں اور شرعا ًدھمکی کے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔

3) تیسری صورت میں سائل نے کہا کہ ؛آپ مجھ سے دور رہو؛ یہ الفاظ بھی طلاق  کے واقع ہونے میں نیت کے محتاج ہیں اگر سائل کی نیت ان الفاظ سے طلاق دینے کی تھی تو طلاق بائن واقع ہوجائے گی ورنہ ان الفاظ سے بھی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

خلاصہ یہ کہ سائل کے بیان کردہ مسئلہ میں سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،سائل کا نکاح اپنی بیوی سے بدستور قائم ہے،البتہ سائل کی نیت نہ ہونے کے بارے میں سائل کی بات قسم کے ساتھ معتبر ہوگی۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: اخرجي اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك، قيد باقتصاره على اذهبي؛ لأنه لو قال: اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى، ولو قال: اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى،كذا في الخلاصة، ولو قال: اذهبي فتزوجي، وقال: لم أنو الطلاق لم يقع شيء؛ لأن معناه تزوجي إن أمكنك وحل لك، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان."

(کتاب الطلاق،باب الکنایات الخ،326/3،ط: دارالکتاب الاسلامی)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:

"صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام."

(كتاب الطلاق ج:1 ،ص:38،ط:دار المعرفة)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو قال لامرأته: " دور باش از من " (کوني بعيداّ عني)يقع إذا نوى."

(کتاب الطلاق،الباب الثانی،387/1،ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں