بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چالیس روزہ جماعت والے افراد قصر کریں یا اتمام؟


سوال

میں  سال کی  جماعت میں چل رہا ہوں ،  مجھے ایک چلے کےلیے کسی صوبہ کے کسی ضلع میں بھیجتے ہیں، اس ضلع میں ہمارا چالیس روز قیام ہوتا ہے،  دو دن تین دن کے بعد 2کلو میٹر  3 کلومیٹر کے فاصلے سے ہماری جماعت دوسری مسجد میں چلی جاتی ہے تو کبھی کسی مسجد میں کوئی  حافظ  یا عالم نہیں ہوتا تو کیا ہم اس صورتِ  حال میں  جب کہ وہ ہمیں عصر کی نماز پڑھانے کے  لیے کہیں  تو کیا ہم پڑھا سکتے ہیں؟

جواب

تبلیغِ  دین کے مقصد سے جماعت میں نکلے افراد   کی تشکیل اپنے وطن سے  48 میل (77.24 کلومیٹر) یا زائد  مسافت پر  واقع  اگر  کسی ایسے علاقے میں ہوئی ہو،  جس میں چھوٹی چھوٹی الگ الگ بستیاں ہوں،  جن کے درمیان فاصلہ ہو، تو  خواہ اس  علاقے میں پندرہ یا اس سے زیادہ دن ٹھہرنے کی نیت ہو،  تب بھی  جماعت میں شامل افراد بدستور  مسافر  رہتے  ہیں، کیوں کہ وہ ایک ہی بستی میں پندرہ دن قیام نہیں کرتے،  جس کے سبب  رباعی  (چار رکعات والی فرض) نمازوں میں    قصر واجب  ہوتی  ہے۔

البتہ اگر ان کی تشکیل کسی  شہر  یا  بڑی بستی / قصبہ  میں ہوئی ہو، جو  مختلف محلوں  پر مشتمل ہو ، اور جماعت میں شامل افراد  وہاں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ایام رہائش کی نیت کرلیں، تو اس صورت میں جائے تشکیل ان کے حق میں وطنِ  اقامت قرار پائے گا، جس کی بنا پر سفر کے احکامات ان پر لاگو نہیں ہوں گے، اور رُباعی (چار رکعات والی فرض) نمازوں میں اِتمام  (پوری نماز پڑھنا) واجب ہوگا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں   مذکورہ جماعت کی تشکیل  اگر  کئی محلوں پر مشتمل  شہر  یا قصبہ یا ضلع  میں ہوئی ہو،   تو اس صورت میں وہ اس شہر  یا قصبہ میں مقیم شمار ہوں گے، اور رباعی نمازوں میں اِتمام لازم ہوگا، اور ایسی صورت میں اگر امامت کرنی پڑے تو پوری نماز حسبِ معمول ادا کرنی ہوگی، بصورتِ دیگر  (یعنی مختلف چھوٹی چھوٹی بستیوں میں تشکیل ہوئی جو ایک دوسرے سے جدا ہوں) مسافر ہی  رہیں گے، اور ان پر قصر واجب ہوگی، اور  چلے کے  دوران  اگر امامت کرنا پڑے تو  قصر ہی پڑھنا ضروری ہوگا۔

واضح رہے کہ دورانِ سفر مسافر شخص کے لیے امامت منع نہیں ہے، البتہ اگر مقیم امام یا مقیم افراد میں متقی پرہیز گار اور عالم موجود ہو  تو اس کا امامت کرنا بہتر ہوگا، تاہم اگر مسافر امامت کرائے تو اسے چاہیے کہ چار رکعات والی فرض نماز میں دو رکعت پر سلام پھیر کر، مقتدیوں کو آگاہ کردے کہ وہ مسافر ہے، مقتدی اپنی نماز مکمل کرلیں۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(وأما) اتحاد المكان: فالشرط نية مدة الإقامة في مكان واحد؛ لأن الإقامة قرار والانتقال يضاده ولا بد من الانتقال في مكانين وإذا عرف هذا فنقول: إذا نوى المسافر الإقامة خمسة عشر يومًا في موضعين فإن كان مصرًا واحدًا أو قريةً واحدةً صار مقيمًا؛ لأنهما متحدان حكمًا، ألايرى أنه لو خرج إليه مسافرًا لم يقصر فقد وجد الشرط وهو نية كمال مدة الإقامة في مكان واحد فصار مقيمًا وإن كانا مصرين نحو مكة ومنى أو الكوفة والحيرة أو قريتين، أو أحدهما مصر والآخر قرية لا يصير مقيما؛ لأنهما مكانان متباينان حقيقةً و حكمًا."

(كتاب الصلاة، فصل: وأمابيان مايصيرالمسافربه مقيما، ١ / ٩٨، ط: ج: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو نوى الإقامة خمسة عشر يومًا في موضعين فإن كان كل منهما أصلًا بنفسه نحو مكة ومنى والكوفة والحيرة لايصير مقيمًا وإن كان أحدهما تبعًا للآخر حتى تجب الجمعة على سكانه يصير مقيمًا."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس عشرفي صلوة المسافر،  ١ / ١٤٠، ط: مكتبة رشيدية)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201656

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں