بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ڈاکٹر کا اپنا ذاتی کلینک چلانا


سوال

قانون کی خلاف ورزی کرنا کیا حرام ہے؛ کیوں کہ آئین کے مطابق سرکاری  ڈاکٹر اپنا ذاتی کلینک نہیں چلا سکتے، مگر میرے ابو ایسا کرتے ہیں تو میرے  لیے کیا حکم  ہے؟

جواب

ملحوظ رہے  جب حکومت کی طرف سے عوام الناس کے مفاد  کی خاطر کوئی  پابندی ہو تو عوام الناس کے  لیے  حکومتی احکامات کی پاس داری کرتے ہوئے اس سے اجتناب  ضروری ہے؛  لہذا اگر واقعتًا  یہ  قانون  مطلق ہو کہ سرکاری ڈاکٹر اپنا ذاتی کلینک  پورے دن میں کسی وقت بھی نہیں چلا سکتے ، تو  سرکاری ڈاکٹر کے لیے اس کی خلاف ورزی  کرتے ہوئے ذاتی کلینک کھولنا درست   نہ ہوگا،  البتہ اگر کسی نے کیا تو کمائی کو  حرام نہیں کہا جاسکتا، بشرطیکہ جس وقت سرکاری ڈیوٹی ہو، وقت پورا دے اور کام بھی پوری دیانت اور ذمہ داری سے کرے۔ اور اگر سرکاری ڈیوٹی کے اوقات میں اپنا ذاتی کلینک چلائے گا تو جتنا وقت سرکاری ڈیوٹی کے وقت میں  سے نہیں دے گا اس کی تنخواہ حلال نہیں ہوگی۔

اور اگر سرکاری ڈاکٹر کی ملازمت کے اوقات متعین ہیں اور قانون یہ ہے کہ ان اوقات میں دوسری ملازمت کی اجازت نہیں ہے، ہاں اگر کوئی اس وقت کے علاوہ کوئی کام کرتاہے تو اس کی ممانعت نہیں  ہے تو ملازمت کے اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں اپنا کام کرنے کی اجازت ہوگی۔

بہتر ہے کہ اس بارے میں متعلقہ افسران و حکام سے رابطہ کرکے قانون کی تفصیل معلوم کرلی جائے، اور اس کے مطابق عمل کیا جائے۔

بہرصورت اگر آپ کے والد کا کلینک چلاکر کمانا جواز کے دائرے میں آتاہے، (مثلًا وہ سرکاری ملازمت کے اوقات پورے دیتے ہیں اور وہاں کا کام بھی پوری ذمہ داری سے کرتے ہیں، اور اضافی اوقات میں اپنا کلینک بھی چلا رہے ہیں)  پھر تو  آپ کے لیے ان کی آمدن استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ان کا کلینک چلاکر کمانا جواز کے دائرے میں نہیں آتا (یعنی وہ سرکاری اوقات میں کلینک چلارہے ہیں) تو اگر ان کی اکثر آمدن حلال ہے، اور کچھ آمدن میں کراہت ہے تو بھی آپ کے لیے ان کی آمدن استعمال کرنا جائز ہوگا، اور اگر وہ سرکاری ملازمت کا بالکل حق ادا نہیں کرتے،  ملازمت کے اوقات بالکل نہیں دیتے اور جتنی آمدن ان کے غلط طریقے سے حاصل ہوتی ہے وہ غالب ہے، یعنی پچاس فیصد سے زیادہ آمدن حلال نہیں ہے تو ایسے شخص کے نابالغ بچوں اور بالغہ بیٹیوں کے لیے مجبورًا اس آمدن کا استعمال جائز ہوگا، گناہ مذکورہ شخص کو ہوگا، اور جو بیٹے بالغ ہیں اور وہ اپنے روزگار کا انتظام کرسکتے ہیں ان کے لیے اپنے روزگار کا انتظام ان کے ذمے لازم ہوگا، اور ان کے لیے ایسی آمدن استعمال کرنا درست نہیں ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"

(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں