بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 محرم 1447ھ 03 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

چکی والے سے گندم کے عوض آٹا لینے کی صورتیں اور ان کا حکم


سوال

چکی والے کو گندم دے کر آٹا لینا اس صورت میں جب کہ وہ بعینہ اسی گندم کا آٹا فراہم نہیں کرتا بلکہ پہلے سے موجود آٹا دیتا ہے اور آٹا، گندم کی مقدار سے کم دیتا ہے ، مثلا اگر پانچ کلو گندم ہو تو بدلے میں تین کلو آٹا دے گا اور کچھ نقدی رقم بھی لیتا ہے، کیا یہ صورت جائز ہے ؟

اسی طرح بعض اوقات وہ اسی وقت آٹا فراہم کرنے کے بجائے بعد میں دینے کا وعدہ کرتا ہے، اس کا کیا حکم ہے ؟

مندرجہ بالا صورتیں اگر ناجائز ہیں تو ان کے جواز کی کیا صورت ہوسکتی ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ گندم کا آٹے کے ساتھ تبادلہ کرنا یعنی گندم دے کر آٹا لینا  یا آٹا دے کر عوض میں گندم لینا جائز نہیں ہے، اس میں برابری ممکن نہیں ، لہذا سود کا شبہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ کرنا شرعا درست نہیں ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں چکی والے  کو گندم دے کر اس کے بدلے   گندم کا  آٹا لینا  شرعا جائز نہیں، اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ پہلے اپنےپاس موجود گندم، چکی والے  کو فروخت کر کے اس سے رقم وصول کی جائے پھر اس نقد رقم سے چکی والے سے آٹا خرید لیا جائے یا  اپنی دی ہوئی گندم چکی والے سے پسوا کر بعینہ وہ ہی گندم لے کر اس کی اجرت  چکی والے کو ادا کردی جائے۔

نیز اگر چکی والا اسی وقت آٹا فراہم کرنے کے بجائے بعد میں دینے کا وعدہ کرے تو اس میں یہ صورت اختیار کی جائے کہ چکی والے کو اپنی گندم پسوانے کے لیے دے دی جائے اور اس کی اجرت نقد میں طے کر لی جائے،پھر بعد میں پیسنے کی اجرت ادا کرکے اپنی دی ہوئی گندم کا  آٹا وصول کرلیا جائے۔

سنن ترمذی میں ہے :

"عن عبادة بن الصامت رضي اللّٰه عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الذهب بالذهب مثلا بمثل، والفضة بالفضة مثلا بمثل، والتمر بالتمر مثلا بمثل، والبر بالبر مثلا بمثل، والملح بالملح مثلا بمثل، والشعير بالشعير مثلا بمثل، فمن زاد او ازداد، فقد اربى، بيعوا الذهب بالفضة، كيف شئتم يدا بيد، وبيعوا البر بالتمر كيف شئتم يدا بيد، وبيعوا الشعير بالتمر، كيف شئتم يدا بيد."

(أبواب البيوع عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم، باب ما جاء أن الحنطة بالحنطة مثلا بمثل و كراهية التفاضل فيه، ج: 3، ص: 93، ط: دار الرسالة العالمية)

"ترجمہ : عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو سونے سے، چاندی کو چاندی سے، کھجور کو کھجور سے، گیہوں کو گیہوں سے، نمک کو نمک سے اور جو کو جو سے برابر برابر بیچو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا۔ سونے کو چاندی سے نقداً نقد، جیسے چاہو بیچو، گیہوں کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو، اور جو کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو۔"

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"........... يوضحه أن ‌بيع ‌الحنطة ‌بالدقيق ربا وبيع الحنطة بالسويق ربا ومن ضرورة كون كل واحد منهما جنسا للحنطة أن يكون أحدهما جنسا للآخر وإنما اختلف الاسم للصنعة لا اسم العين فكل واحد منهما أجزاء متفرقة فيما كان له لت الحنطة قبل التفريق."

(کتاب البیوع، بیع السویق بالدقیق، ج: 12، ص: 179، ط: دار المعرفة)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وكذلك بيع الحنطة بدقيق الحنطة ؛ لأن في الحنطة دقيقا إلا أنه مجتمع ؛ لوجود المانع من التفرق ، وهو التركيب ، وذلك أكثر من الدقيق المتفرق عرف ذلك بالتجربة إلا أن الحنطة إذا طحنت ازداد دقيقها على المتفرق. ....ومعلوم أن الطحن لا أثر له في زيادة القدر فدل أنه كان أزيد في الحنطة ؛ فيتحقق الفضل من حيث القدر بالتجربة عند العقد فيتحقق الربا" .

(کتاب البیوع، فصل في شرائط صحة البیوع، ج:5، ص: 188، ط: دار الکتب العلمیة)

 الإختيار لتعليل المختار  میں ہے:

"قال: (ولا يجوز ‌بيع ‌الحنطة ‌بالدقيق ولا بالسويق ولا بالنخالة، ولا الدقيق بالسويق) والأصل فيه أن شبھة الربا وشبھة الجنسية ملحقة بالحقيقة في باب الربا احتياطا للحرمة، وهذه الأشياء جنس واحد نظرا إلى الأصل، والمخلص هو التساوي في الكيل، وأنه متعذر لانكباس الدقيق في المكيال أكثر من غيره، وإذا عدم المخلص حرم البيع."

(کتاب البیوع،‌‌ باب الربا، ج: 2، ص: 32، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللّٰه أعلم


فتوی نمبر : 144611101277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں