بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چائنہ موزوں پر مسح کرنا


سوال

آج کل نئے  موزے جو آئے ہیں،چائنہ والے کیا ان موزوں پر مسح جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جن "خفین "پر مسح  کرناشرعاً جائز ہے، اس سے مراد " ایسے موزے ہیں جو پورے چمڑے کے ہوں، اسی طرح  وہ موزے جن کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو، اور  وہ موزے جن کے صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو  ان تینوں پر مسح کرنا شرعاً جائز ہے۔

 اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں تو  ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) ایسے گاڑھے (موٹے) ہوں کہ ان میں پانی نہ چھنے، یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے۔

(2)  اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بھی اس میں  تین میل پیدل چلنا ممکن ہو۔

(3) وہ کسی  چیز سے باندھے بغیر اپنی موٹائی اور سختی کی وجہ سے  پنڈلی پر خود قائم رہ سکیں، اور یہ کھڑا رہنا کپڑے کی تنگی اور چستی کی وجہ سے نہ ہو۔

  ان کے علاوہ  باقی اونی، سوتی یا نائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح کرنا ائمہ اربعہ میں سے کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے،لہذا سوال میں موجود موزوں کا حکم مذکورہ شرائط کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، والحسن أنهما قالا: يمسح على الجوربين إذا كانا صفيقين."

  (كتاب الطہارات،فی المسح علی الجوربین،1/ 171 ،ط:دارالتاج)

  مراقي الفلاح شرح نورالایضاح میں ہے:

"ويشترط لجواز المسح على الخفين سبعة شرائط: الأول :منها: لبسهما بعد غسل الرجلين.والشرط الثاني:سترهما أي الخفين الكعبين. و الشرط الثالث: إمكان متابعة المشي فيهما أي الخفين .و الشرط الرابع :خلو كل منهما أي الخفين عن خرق قدر ثلاث أصابع من أصغر أصابع القدم. و الشرط الخامس: استمساكهما على الرجلين من غير شد.والشرط السادس :منعهما وصول الماء إلى الجسد.والشرط السابع: أن يبقى بكل رجل من مقدم القدم قدر ثلاث أصابع من أصغر أصابع اليد."

(كتاب الطهارة،باب المسح على الخفين ،ص:56،ط:المکتبۃ العصریۃ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط جواز المسح فأنواع بعضها يرجع إلى الماسح وبعضها يرجع إلى الممسوح..... وأما الذي يرجع إلى الممسوح ، فمنها:أن يكون خفا يستر الكعبين..... ومنها: أن لا يكون بالخف خرق كثير فأما اليسير فلا يمنع المسح وهذا قول أصحابنا الثلاثة وهو استحسان."

(كتاب الطهارة، فصل  المسح على الخفين،10/1،ط:دارالکتب العلمیۃ)

البحرالرائق میں ہے :

"ذكر قاضي خان في فتاواه :ثم الخف الذي يجوز المسح عليه ما يكون صالحا لقطع المسافة والمشي المتتابع عادة ،ويستر الكعبين وما تحتهما، وما ليس كذلك لا يجوز المسح عليه ،ثم قال: ويجوز المسح على الخف الذي يكون من اللبد ، وإن لم يكن منعلا ؛ لأنه يمكن قطع المسافة به.وفي الخلاصة : وأما المسح على الخفاف المتخذة من اللبود التركية فالصحيح أنه يجوز المسح عليه."

(كتاب الطهـارة،باب المسح على الخفين،189/1،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506101666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں