بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چائے کی پتی کو کلر دے کر فروخت کرنے کا حکم


سوال

ہمارا پتی کا کام ہے،  کینیا کی پتی کا ریٹ بہت زیادہ ہے اکثر ہوٹلوں والے سستی پتی خریدتے ہیں،  اصل میں کینیا کی پتی نہیں ہوتی ، بلکہ ویتنام کی پتی ہوتی ہے جو بہت ہلکی ہوتی ہے،  جس کا رنگ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے،  دکاندار اس پتی کو خرید کر اس کو کلر لگاتے ہیں،  اور وہ کلر ان سستی پتیوں میں ڈالتے ہیں ، جس کی وجہ سے اس پتی کا کلر ٹھیک ہو جاتا ہے اور ہوٹل والوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے ان کی گیس کی بھی بچت ہو جاتی ہے کہ چائے کا رنگ نکالنے کیلئے اس چائے کو زیادہ پکانا نہیں پڑتا اور اس کے ساتھ ان کی پتی کی بھی بچت ہو جاتی ہے کہ تھوڑی پتی استعمال کرنی پڑتی ہے اور وقت کی بھی بچت ہو جاتی ہے اور پتی بھی ان کو سستی مل جاتی ہے اور پتی کو کلر فیکٹری لگاتی ہے ان فیکٹری والوں کا کہنا ہے کہ یہ فوڈ کلر ہوتا ہے جیسے میٹھائیوں کو کلر کیا جاتا ہے اور جیسے زردہ کلر ہوتا ہے واللہ اعلم پوچھنا یہ تھا کہ پتی کا یہ کلر دوسری پتیوں میں ڈالنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جب  غلط بیانی سے کام  نہ لیا جائے،اور نہ  حقیقت کو  چھپایا جائے ،یا چیز کے نام میں ہیر پھیر کرکے التباس (شک وشبہ) پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے،  بلکہ گاہگ پر یہ چیز بلکل واضح ہو  کہ یہ ویتنام کی پتی ہے لیکن کلر دوسری پتی کا ہے، تو یہ عمل دھوکہ نہیں کہلائے گا، لہٰذا صورت ِ حال واضح کرکے اس طرح چائے پتی  میں دوسری پتی کا کلر شامل کرکے فروخت کرنا  درست ہوگا  بشرط یہ کہ  مذکورہ کلر   میں کوئی حرام اجزا شامل نہ ہو،اور صحت کے لیے مضر  نہ ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام. فأدخل يده فيها. فنالت أصابعه بللا. فقال "ما هذا يا صاحب الطعام؟ " قال: أصابته السماء. يا رسول الله! قال " أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس؟ ‌من ‌غش فليس مني"

 (صحيح مسلم، كتاب الإيمان، ‌‌ باب قول النبي صلى الله تعالى عليه وسلم " من غشنا فليس منا، ج:1، ص:99،رقم:101،   ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌لا ‌يحل ‌كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام..(قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته، قال الصدر لا نأخذ به. اهـ. قال في النهر: أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا؛ لأنه صغيرة. قلت: وفيه نظر؛ لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة."

(كتاب البيوع، باب خيار العيب، مطلب في الصلح عن العيب، ج:5، ص:47، ط:سعيد)

فقہ البیوع علی المذاھب الاربعۃ میں ہے:

"وقد اشتهر على الألسُن أنّ حكم التّعامل مع من كان مالُه مخلوطاً بالحلال والحرام أنّه إن كان الحلالُ فيها أكثر، جاز التّعاملُ معه بقبول هديّته وتعاقد البيع والشّراء معه، وبذلك صدرت بعضُ الفتاوى. ولكنّ ما يتحقّق بعد سبر كلام الفقهاء الحنفيّة فى هذا الموضوع أنّ اعتبارَالغلبة إنّما هو فى الصّورة الأولى، يعنى فيما إذا كان الحلالُ متميّزاً عن الحرام عند صاحبه، ولايعلمُ المتعاملُ معه أنّ ما يُعطيه من الحلال أو من الحرام. فحينئذٍ تُعتبر الغلبة، بمعنى أنّه إن كان أكثرُ ماله حلالاً، يُفرض أنّ ما يُعطيه من الحلال، والعكس بالعكس، كما قدّمنا نُصوصه فى الصّورة الأولى."

(الباب العاشر في أحكام المال الحرام،  القسم الثالث ما كان مجموعا من الحلال و الحرام، ج:2، ص:997، ط:مكتبة  معارف القرآن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں