بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چادراوڑھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں سجدہ میں ہاتھ باہر نکالنا کیا ضروری ہے؟


سوال

اگر کوئی بندہ چادر اوڑھ کر نماز پڑھ رہا ہو ،اب وہ آدمی جب سجدہ میں جائے گا ،تو کیا چادر کے اندر سے ہی سجدہ کر سکتا ہے  یا چادر سے ہاتھ باہر نکالنا ضروری ہو گا؟شرعی  راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

نماز کی حالت میں اس طرح چادر لپیٹنا کہ ہاتھ باہر نہ نکالے جاسکیں مکروہ ہے، نیز نماز کے دوران چادر کو کندھوں سے  لٹکاکر رکھنا  بھی مکروہ ہے،  البتہ اگر چادر ایسے اوڑھی جائے کہ اسے کاندھوں  یا سر  پر ڈال کر لپیٹ دیا جائے اور دونوں ہاتھ سہولت سے باہر نکل سکیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  چادر اوڑھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں اگر چادر اس طرح اوڑھی  جائے  کہ  سجدہ باآسانی سنت طریقے پر ادا کیا جا سکتا ہو،تو ہاتھوں کا چادر سے  باہرنکالنا کوئی ضروری نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: يكره اشتمال الصماء) لنهيه عليه الصلاة والسلام عنها، وهي أن يأخذ بثوبه فيخلل به جسده كله من رأسه إلى قدمه و لايرفع جانبا يخرج يده منه؛ سمي به لعدم منفذ يخرج منه يده كالصخرة الصماء وقيل أن يشتمل بثوب واحد ليس عليه إزار، وهو اشتمال اليهود زيلعي. وظاهر التعليل بالنهي أن الكراهة تحريمية كما مر في نظائره."

(كتاب الصلاة، باب مايفسد الصلاة و ما يكره فيها،فروع اشتمال الصلاة على الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وكل عمل قليل بلا عذر،1/ 652،  ط: سعيد)

الموسوعۃ الفقھیۃ میں ہے :

"وقال جمهور الفقهاء: الأفضل أن يصلي بقميص ورداء، فإن أراد الاقتصار على ثوب واحد فالقميص أفضل من الرداء؛ لأنه أبلغ في الستر، ثم الرداء ثم المئزر، وإن كان يصلي بثوبين فالأفضل القميص والرداء، ثم الإزار أو السراويل مع القميص، ثم أحدهما مع الرداء، والإزار مع الرداء أفضل من السراويل مع الرداء؛ لأنه لبس الصحابة؛ ولأنه لا يحكي تقاطيع الخلقة."

(رداء ،ج:22،ص؛170 ،ط:دارالفكر)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(قوله: هو المراد بالمحاذاة) أي الواقعة في كتب ظاهر الرواية وبعض روايات الأحاديث كما بسطه في الحلية، ووفق بينها وبين روايات الرفع إلى المنكبين، بأن الثاني إذا كانت اليدان في الثياب للبرد كما قاله الطحاوي أخذاً من بعض الروايات، وتبعه صاحب الهداية وغيره، واعتمد ابن الهمام التوفيق بأنه عند محاذاة اليدين للمنكبين من الرسغ تحصل المحاذاة للأذنين بالإبهامين، وهو صريح رواية أبي داود قال في الحلية: وهو قول الشافعي، ومشى عليه النووي وقال في شرح مسلم: إنه المشهور من مذهب الجماهير".

(کتاب الصلوۃ،1 / 482 ،ط:سعید)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144506101438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں