بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چچی نامحرم ہے اس لیے اپنے شوہر کے بھتیجے کے ساتھ عمرے کا سفر نہیں کرسکتی


سوال

17-11-23 کو ایک سوال (144505100294) کے جواب میں بتایا گیا کہ کوئی شخص اپنی بھابھی کو بقیہ خاندان کے ہمراہ عمرہ کے لیے نہیں لے جا سکتا۔ اس سلسلے میں ایک اشکال ہے کہ اس شخص کا بیٹا اور بہو بھی تو ساتھ ہے،  تو  مذکورہ صورت میں کیا وہ عورت اپنے بھتیجے کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی؟

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے لیے سفرِ شرعی کی مسافت (78 کلو میڑ ) یا اس سے زیادہ بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، کسی بھی حالت میں جانا، جائز نہیں ہے، نیز چچا کی بیوی (یعنی چچی) شرعاً محرم نہیں ہوتی، چچا کے انتقال یا اس کے طلاق دے دینے کی صورت میں چچی سے نکاح جائز ہوتا ہے اور چچی سے پردہ بھی لازم ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ شخص کا بیٹا، اُس کی بھابھی کا حقیقی بھتیجا (بھائی کا بیٹا) نہیں ہے، بلکہ وہ اُس عورت کے شوہر کا بھتیجا ہے، اس لیے اس عورت کے لیے نامحرم ہے،  لہٰذا محرم نہ ہونے کی بناء پر مذکورہ عورت، عمرے کی ادائیگی کے لیے (فتویٰ نمبر 144505100294 میں )مذکور افراد کے ساتھ سفر نہیں کرسکتی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"‌أسباب ‌التحريم ‌أنواع: قرابة، مصاهرة، رضاع، جمع، ملك، شرك، إدخال أمة على حرة، فهي سبعة: ذكرها المصنف بهذا الترتيب وبقي التطليق ثلاثا، وتعلق حق الغير بنكاح أو عدة ذكرهما في الرجعة.

قال عليه في الرد: (قوله: قرابة) كفروعه وهم بناته وبنات أولاده، وإن سفلن، وأصوله وهم أمهاته وأمهات أمهاته وآبائه إن علون وفروع أبويه، وإن نزلن فتحرم بنات الإخوة والأخوات وبنات أولاد الإخوة والأخوات، وإن نزلن وفروع أجداده وجداته ببطن واحد فلهذا تحرم العمات والخالات وتحل بنات العمات والأعمام والخالات والأخوال فتح."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ٣/ ٢٨، ط: سعيد)

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے:

"(ومنها: المحرم للمرأة) شابةً كانت أو عجوزاً."

(كتاب المناسك، الباب الأول، ١/ ٢١٨، ط: دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100963

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں