بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چچا زاد بھائیوں کا عصبہ بننا


سوال

میں نے ایک فتویٰ پوچھا تھا جس کا نمبر 144408102305ہے ،اس کا جواب بھی موصول ہوا تھا،سوال یہ تھا کہ متوفی کی 56 کنال زمین ہو، متوفی کی ایک بیٹی اور بیوی ہو ،متوفی کے والدین پہلے سے فوت ہو چکے ہوں، متوفی کے 3 چچے بھی متوفی سے پہلے فوت ہو گئے ہوں، لیکن چچوں کا خاندان موجود ہو جس میں ان کے بیٹے ہوں اور پوتے موجود ہوں، متوفی کا کوئی سگا بھائی باپ کی طرف سے نہ ہو لیکن ماں کی طرف سے ایک بھائی ہو،مذکورہ سوال کا جواب یہ موصول ہوا تھا کہ چونکہ چچوں کا انتقال متوفی سے پہلے ہو چکا ہے، اس لیے ان کا اور انکی اولاد کا متوفی کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ۔۔۔ جب میں نےاپنی تحصیل کے دارالافتاء کے مفتی اور تحصیل کے مفتی سے اس کی تصدیق کروانی چاہی جو کہ عدالت کا حکم تھا، انہوں نے اسے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ چچوں کی اولاد کو خارج نہیں کیا جا سکتا۔  درخواست ہے کہ فتویٰ پھر سے جاری کیا جائے جس میں تمام ابہامات واضح   ہو سکیں۔

جواب

واضح رہے کہ سابقہ استفتاء میں چچاؤں کے خاندان کاذکر تھا،مگران کے  بیٹوں کا ذکر نہیں تھا،اسی وجہ سےان کو وارث شمار نہیں  کیا گیا،اب جب کہ یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ مرحوم کے چچاؤں  کے بیٹے بھی تھے ،لہذا عصبہ ہونے کی بناء پر ان کو حصہ ملے گا۔

مرحوم کے چچاؤں کے بیٹوں کی تعداد لکھ کر ترکہ کی تقسیم کا طریقہ معلوم کرلیا جائے۔

سراجی میں ہے:

"یرجحون بقرب الدرجۃ،اعنی اولاھم بالمیراث جزء المیت،ای البنون،ثم بنوھم وان سفلوا۔۔۔۔۔۔ثم جزء جدہ، ای الأعمام،ثم بنوھم وان سفلوا."

(باب العصبات،ص:54،ط:البشریٰ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100130

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں