بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چچا کی بیٹی سے نکاح کا حکم


سوال

کیا چچا کی بیٹی سے نکاح جائز ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ  قرآنِ کریم میں اللہ تعالی نے محرمات (یعنی جن سے نکاح کرنا حرام ہے) میں چچا کی لڑکی کا ذکر/شمار نہیں فرمایا، لہٰذا بصورتِ مسئولہ چچا کی بیٹی کے ساتھ حرمت کا کوئی اور سبب مثلاً رضاعت / مصاہرت وغیرہ نہ پایا جاتا ہو تو اُس سے نکاح کرناجائز ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّهٰتُكُمُ الّٰتِیْۤ اَرْضَعْنَكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَ اُمَّهٰتُ نِسَآئِكُمْ وَ رَبَآئِبُكُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِكُمْ مِّنْ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِكُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِكُمْ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۙ. 23

 

وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا". 24

(سورة النساء، الآية:23-24)

ترجمہ:

23: ’’تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں اور تمہاری بیٹیاں، اور تمہاری بہنیں ،  اور تمہاری پھوپھیاں ، اور تمہاری خالائیں ، اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ،اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے (یعنی انا) اور تمہاری وہ بہنیں جو دودھ پینے کی وجہ سے ہیں ، اور تمہاری بیبیوں کی مائیں، اور تمہاری بیٹیوں کی بیٹیاں ، جو کہ تمہاری پرورش میں رہتی ہیں ان بیبیوں سے کہ جن کے ساتھ تم نے صحبت کی ہو ،اور اگر تم نے ان بیبیوں سے صحبت نہ کی ہو تو تم کو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے ان بیٹوں کی بیبیاں جو کہ تمہاری نسل سے ہوں ، اور یہ کہ تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو لیکن جو پہلے ہوچکا۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں‘‘۔

24: ’’اور وہ عورتیں جو کہ شوہر والیاں ہیں مگر جو کہ تمہاری مملوک ہوجاویں اللہ تعالیٰ نے ان احکام کو تم پر فرض کردیا ہے ، اور ان (عورتوں) کے سوا ( اور عورتیں) تمہارے لئے حلال کی گئیں ہیں (یعنی یہ) کہ تم ان کو اپنے مالوں کے ذریعہ سے چاہو ، اس طرح سے کہ تم بیوی بناؤ صرف مستی ہی نکالنا نہ ہو ، پھر جس طریق سے تم ان عورتوں سے منتفع ہوئے ہو سو ان کو ان کے مہر دو جو کچھ مقرر ہوچکے ہیں اور مقرر ہوئے بعد بھی جس پر تم باہم رضامند ہوجاو ٴاس میں تم پر کوئی گناہ نہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑے جاننے والے ہیں بڑے حکمت والے ہیں‘‘۔

(از: بیان القرآن)

تفسیر القرطبي میں ہے:

"الثانية عشرة- قوله تعالى:(أو أبناء بعولتهن)يريد ذكور أولاد الأزواج، ويدخل فيه أولاد الأولاد وإن سفلوا، من ذكران كانوا أو إناث، كبني البنين وبني البنات. وكذلك آباء البعولة والأجداد وإن علوا من جهة الذكران لآباء الآباء وآباء الأمهات، وكذلك أبناؤهن وإن سفلوا. وكذلك أبناء البنات وإن سفلن، فيستوي فيه أولاد البنين وأولاد البنات. وكذلك أخواتهن، وهم من ولده الآباء والأمهات أو أحد الصنفين. وكذلك بنو الاخوة وبنو الأخوات وإن سفلوا من ذكران كانوا أو إناث كبني بني الأخوات وبني بنات الأخوات. وهذا كله في معنى ما حرم من المناكح، فإن ذلك على المعاني في الولادات وهؤلاء محارم".

 (سورة النور، الآية:31، ج:12، ص:154، ط:دار الکتب العلمية)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"انتفاء محلية المرأة للنكاح شرعا بأسباب تسعة: الأول المحرمات بالنسب: وهن فروعه وأصوله وفروع أبويه وإن نزلوا وفروع أجداده وجداته إذا انفصلوا ببطن واحد. الثاني المحرمات بالمصاهرة: وهن فروع نسائه المدخول بهن وأصولهن وحلائل فروعه وحلائل أصوله، والثالث المحرمات بالرضاع وأنواعهن كالنسب، والرابع حرمة الجمع بين المحارم وحرمة الجمع بين الأجنبيات كالجمع بين الخمس، والخامس حرمة التقديم وهو تقديم الحرة على الأمة جعله في النهاية والمحيط قسما على حدة وأدخله الزيلعي في حرمة الجمع، فقال: وحرمة الجمع بين الحرة والأمة والحرة متقدمة وهو الأنسب، والسادس المحرمة لحق الغير كمنكوحة الغير ومعتدته والحامل بثابت النسب، والسابع المحرمة لعدم دين سماوي كالمجوسية والمشتركة، والثامن المحرمة للتنافي كنكاح السيدة مملوكها، والتاسع لم يذكره الزيلعي وكثير وهو المحرمة بالطلقات الثلاث ذكره في المحيط والنهاية".

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات في النكاح، ج:3، ص:98، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506100786

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں