بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چچا کا بھتیجی کو شہوت سے چھونے کے بعد ان کی اولاد کا آپس میں نکاح کا حکم


سوال

اگر میں (چچا) نے بھتیجی کو شہوت سے چھو لیا ہو، اس وقت دونوں غیر شادی شدہ ہوں، بعد میں دونوں کی شادی ہو جاتی ہے، تو اب میری اولاد کا بھتیجی کی اولاد سے نکاح جائز ہو گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے شرط ہے کہ دونوں بالغ ہوں یا قریب البلوغ ہوں یعنی لڑکا 12 سال یا اس سے زائد عمر کا ہو اور لڑکی 9 سال یا اس سے زائد عمر کی ہو اور ایک دوسرے کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگائیں یا بوس و کنار کریں یا جنسی تعلق قائم کریں تو  ایسی صورت میں ہر ایک کے اصول و فروع دوسرے کے لیے ہمیشہ حرام ہوجاتے ہیں،  نیز یہ بھی واضح رہے کہ جن دو مرد اور عورت کے درمیان  ایک دوسرے کو شہوت سے ہاتھ لگانے کی وجہ سے حرمت  مصاہرت ثابت ہوجائے، تو ان دونوں میں سے ایک کی اولاد  دوسرے کی اولاد  پر حرام نہیں ہوتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے شادی سے پہلے(مذکورہ تفصیل کے تحت)  اپنی بھتیجی کو بلا حائل شہوت کے ساتھ چھویا تھا یا حائل تو تھا، لیکن وہ اتنا باریک تھا کہ اس سے بدن کی گرمی محسوس ہوگئی تھی، تو اس سے اگرچہ ان دونوں کے درمیان حرمتِ مصاہرت ثابت ہوچکی ہے، لیکن سائل (چچا) کی اولاد کا مذکورہ بھتیجی کی اولاد سے نکاح کرناجائز ہوگا۔ باقی سائل کا عمل ناجائز تھا، اس پر صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قال في النهر وأقول: التعليل بعدم الاشتهاء يفيد أن من لا يشتهي لا تثبت الحرمة بجماعه ولا خفاء أن ابن تسع عار من هذا، بل لا بد أن يكون مراهقا، ثم رأيته في الخانية قال الصبي الذي يجامع مثله كالبالغ قالوا وهو أن يجامع ويشتهي، وتستحي النساء من مثله وهو ظاهر في اعتبار كونه مراهقا لا ابن تسع، ويدل عليه ما في الفتح مس المراهق كالبالغ وفي البزازية المراهق كالبالغ حتى لو جامع امرأته أو لمس بشهوة تثبت حرمة المصاهرة. اهـ.

وبه ظهر أن ما عزاه الشارح إلى الفتح وإن لم يكن صريح كلامه لكنه مراده. فتحصل من هذا: أنه لا بد في كل منهما من سن المراهقة وأقله للأنثى تسع وللذكر اثنا عشر؛ لأن ذلك أقل مدة يمكن فيها البلوغ كما صرحوا به في باب بلوغ الغلام، وهذا يوافق ما مر من أن العلة هي الوطء الذي يكون سببا للولد أو المس الذي يكون سببا لهذا الوطء، ولا يخفى أن غير المراهق منهما لا يتأتى منه الولد."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 35، ط: سعيد)

وفيه أيضاً:

"(‌و) ‌حرم ‌أيضا ‌بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لا يمنع الحرارة.

(قوله: وحرم أيضا بالصهرية أصل مزنيته) قال في البحر: أراد بحرمة المصاهرة الحرمات الأربع حرمة المرأة على أصول الزاني وفروعه نسبا ورضاعا وحرمة أصولها وفروعها على الزاني نسبا ورضاعا كما في الوطء الحلال ويحل لأصول الزاني وفروعه أصول المزني بها وفروعها. اهـ."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 32، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة. وكذا لو مس أسفل الخف إلا إذا كان منعلا لا يجد لين القدم، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ج: 1، ص: 275، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507101346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں