کیا پھوپھی، چاچا وغیرہ کو زکاۃ دی جا سکتی ہے؛ کیوں کہ بطور رشتہ دار ان کا قریبی اور پہلا حق بنتا ہے؟
واضح رہے کہ اپنے اصول (والدین، دادا، نانا وغیرہ) وفروع (اولاد، ان کی نسل) کو اور اسی طرح بیوی کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار چاچا، چچازاد بھائی، پھوپھی اور ان کی اولاد اگر مستحقِ زکاۃ ہو تو ان کو زکاۃ دینا جائز ہے، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں زکاۃ کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔
ملحوظ رہے کہ زکاۃ اس شخص کو دی جاسکتی ہے جو غریب اور ضروت مند ہو اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر رقم نہ ہو ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت سے زائد سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107201147
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن