بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی کے زیورات کی زکات دینا اور ان زیورات میں تصرف


سوال

میری شادی کو آٹھ سال ہو چکے ہیں ،اور حق مہرکی مد میں میں نے اپنی بیوی کو ساڈھے چھ تولہ سونا دیا ہے، اور اس طرح چار تولہ سونا میری بیوی اپنے ماں کی طرف سے بھی لے آئی تھی ،اور میں نے جوسونا دیا وہ       مجھے میری ماں نے دیاتھا، شادی کے لیے میری شروع سے اتنی اچھی آمدنی نہیں رہی ،اور آج بھی میں مایانہ 35000  روپے کماتا ہوں ،اور دو بچوں کا ساتھ بھی ہے اور میں نے آج تک ان سونا جو کہ زیورات کی  شکل میں موجود ہیں ،ان کی زکوۃ ادا نہیں کی۔

کیا مجھے پر زکوۃ ادا کرنا لازم ہے ؟

ان حالات میں زکوۃ کو  کیسے ادا کروں؟

کیا زیورات کو فروخت کرکے زکوۃ ادا کرسکتاہوں؟

کیا ان کو فروخت کرکے اور اس رقم سے عمرہ کرسکتاہوں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں آپ نے اپنی بیوی کو جوسونا بطور مہر دیاتھا ، اور جو اپنے میکے سے سونالائی تھی یہ سب سونا (آپ کا دیا ہوا اور میکے کادیاہو) آپ کی بیوی کی ملکیت ہے اور اس کی زکوۃبھی اس پرلازم ہے، آپ پرلازم نہیں ،البتہ آپ اس کی طرف سے زکوۃ دینا چاہتےہیں تو  دے سکتے ہیں،اگر آپ کے پاس اتنی رقم نہیں تو بیوی پر لازم ہوگا کہ  سونا بیچ کر  زکوۃ  ادا کی  جائے۔ نیز  زکوۃ  ایک  ساتھ  دینا ضروری نہیں تھوڑی تھوڑی کرکے بھی دے سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ سونا آپ کی بیوی کی ملکیت ہے اس لیے آپ کے لیےاس کی اجازت کےبغیر اس سونے کو بیچنااور  استعمال کرنا درست نہیں ،اگر بیوی اجازت دےتو بیچ کر اس کی اجازت سے اس رقم سےعمرہ کیا جا سکتا ہے،تاہم اس رقم کو استعمال کرنےکی حیثیت واضح کر ناضروری ہوگاکہ وہ آپ قرض لے رہے ہیں یاآپ کی بیوی آپ کو ہدیہ  کررہی ہے۔

سنن ابی داود میں ہے:

"عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم ببعض أول هذا الحديث، قال: «‌فإذا ‌كانت ‌لك مائتا درهم، وحال عليها الحول، ففيها خمسة دراهم، وليس عليك شيء - يعني - في الذهب حتى يكون لك عشرون دينارا، فإذا كان لك عشرون دينارا، وحال عليها الحول، ففيها نصف دينار، فما زاد، فبحساب ذلك."

‌‌(كتاب الزكاة،١٠٠/٢،ط : المكتبة العصرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و لیس في دور السکنی و ثیاب البدن و أثاث المنازل و دوابّ الرکوب و عبید الخدمة و سلاح الاستعمال زکاة؛ لأنها مشغولة بحاجته  الأصلیة ولیست بنامیة".

(كتاب الزكوة ٢٦٢/٢،ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف ‌مثقال ‌مضروبا كان أو لم يكن مصوغا أو غير مصوغ حليا كان للرجال أو للنساء تبرا كان أو سبيكة كذا في الخلاصة. ويعتبر فيهما أن يكون المؤدى قدر الواجب وزنا، ولا يعتبر فيه القيمة عند أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى ".

‌‌[كتاب الزكاة،الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة،١٧٨/١،ط : المطبعة الكبرى الأميرية]

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں