زیدنے بکرکوپانچ لاکھ قرض ديے،اب بکرقرض ادا کرنے پر قادرنہیں هے، لیکن درمیان میں عمرنے بکر سے کہا کہ میں زیدکو آپ كی جگہ چارلاکھ روپے ادا کردونگا ،مگر آپ (بکر) كو مجھے پھر پانچ لاکھ روپے دینے ہوں گے، کیاعمركے ليے بکرسے ایک لاکھ روپے اضافی لینا سود تونہیں ہے؟ زید چارلاکھ لینے پراضی بھی ہے کیونکہ بکرقرض دینے پرقادر نہیں تھا۔
صورتِ مسئولہ میں عمر کا بکر کی طرف سے زید کو چار لاکھ روپے ادا کرنے کی صورت میں وہ اپنے چار لاکھ روپے کا ہی حقدار ہوگا، اور اسی کا مطالبہ وہ بکر سے کرسکتا ہے، لیکن اگر وہ اس شرط پر بکر کی طرف سے زید کو چار لاکھ روپے ادا کرے گا کہ بعد میں وہ بکر سے چار لاکھ روپے کے بدلے میں پانچ لاکھ روپے وصول کرے گا تو یہ زائد رقم صریح سود ہےاور "كل قرض جر نفعاّ فهو ربا" میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے،اس کا لین دین جائز نہیں ہے، قرض دینے والا صرف اپنی دی ہوئی قرض کی رقم کا حقدار ہوگا۔
الدر مع الرد میں ہے:
"(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به."
(فصل فی القرض، مطلب کل قرض جر نفعا حرام،ج5،ص166،ط:سعید)
فقطواللہاعلم
فتوی نمبر : 144307100687
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن