بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار بیٹے چار بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم / دادا دادی کی وراثت میں مرحوم بیٹے کی اولاد کا حق کیا ہے؟


سوال

1۔ میرے والد اور والدہ  کی وراثت کی تقسیم کا طریقہ معلوم کرنا ہے۔ 

والد کے ترکہ میں دو مکان ہیں جبکہ والدہ کے ترکہ میں دو زرعی زمینیں ہیں۔

ورثاء میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں حیات ہیں، جبکہ ایک بیٹے کا والدین کی حیات میں ہیں انتقال ہوگیا تھا، جبکہ ہمارے دادا دادی اور نانا نانی کا انتقال والدین کی حیات میں ہی ہوگیا تھا۔

2۔ مرحوم بیٹے کی کی بیوہ اور ایک بیٹا اور دو بیٹیوں کا ہمارے والدین کی متروکہ جائیداد میں کچھ حصہ ہے یا نہیں؟

شریعت کی روشنی میں رہنمائی درکار ہے۔

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں مرحوم والدین کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومین کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین، کے اخراجات نکالنے کے بعد اگر مرحومین پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحومین نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی سے نافذ  کرنے کے  بعد باقی  کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ  کو 12 حصوں میں تقسیم کرکے دو حصے ہر ایک زندہ بیٹے کو، اور ایک ایک حصہ ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت: 12

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی بیٹیبیٹیبیٹی
22221111

یعنی 100 روپے میں سے 16 روپے 66 پیسے ہر ایک زندہ بیٹے کو ، اوی 8 روپے 33 پیسے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے، پس اگر مذکورہ چاروں متروکہ جائیداد کو فروخت کرکے فی الحال تقسیم کرنا مقصود نہ ہو تو ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو درج بالا طریقہ کے مطابق ہر ماہ یا فصل فصل کی کٹائی کے بعد اسے چاروں بیٹے اور چاروں بیٹیوں میں تقسیم کرنا ضروری ہوگا۔

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(المادة : ١٠٧٤ ) - (تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة"

(الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ٣ / ٢٦، ط: دار الجيل)

2۔  صورت مسئولہ میں سائل کے  مرحوم  والدین کے جس بیٹے کا انتقال ان کی حیات میں ہوگیا تھا، مرحوم بیٹے کی بیوہ اور اولاد اپنے دادا دادی کے ترکہ کے حقدار نہیں، البتہ اگر عاقل بالغ ورثاء اپنی رضامندی سے والدین کی میراث میں سے اپنے شرعی حصہ میں سے انہیں کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں، اور یہ ان کی طرف سے تبرع و احسان ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وشروطه ثلاثة موت مورث حقيقة أو حكما كمفقود أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهل إرثه." (  كتاب الفرائض، ٦ / ٧٥٦، ط: دار الفكر)

عمدة القاري شرح صحيح البخاري میں ہے:

"قوله: (ولا يرث ولد الابن مع الابن) ذكر هذا تأكيدا لما تقدم فإن حجب أولاد الابن بالابن إنما يؤخذ من قوله: إذا لم يكن دونهم ... إلى آخره، بطريق المفهوم."

(كتاب القدر، باب ميراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، ٢٣ / ٢٣٩، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

تکملة فتح الملهم میں ہے:

"ولو کان مدار الإرث علی الیتم والفقر والحاجة لما ورث أحد من الأقرباء والأغنیاء، وذهب المیراث کله إلی الیتامي والمساکین و يقول الله سبحانه و تعالي: " وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينُ فَارْزُقُوهُم مِّنْهُ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا" خاطب الله سبحانه و تعالي في هذه الآية ورثة الميت، أن يدفعوا شيئا مما حصلوا عليه بالميراث الي أولي القربي و اليتامي و المساكين الذين لم يرثوا الميت. فتبين ان أولي القربي و اليتامي لا يرثون الميت في كل حال، وأن معیار الإرث لیس هو القرابة المحضة ولا الیُتم والمسکنة، وإنما هو الأقربیة إلی المیت .... وقد ذکر الإمام أبوبکر جصاص الرازي رحمه اللّٰه في أحکام القرآن ٢ / ١٠١ والعلامة العیني في عمدة القاري ٢٣ / ٢٣٨: "الإجماع علی أن الحفید لایرث مع الابن".

( باب ألحقوا الفرائض بأهلها الخ، مسئلة ميراث الحفيد عند وجود الابن، ۲ /۱۷- ۱۸، ط: مكتبة دار العلوم كراتشي) 

السراجی فی المیراث میں ہے:

"يرجحون بقرب الدرجة، أعني أولاهم بالميراث جزء الميت، أي البنون، ثم بنوهم وإن سفلو الخ."

(باب العصبات، ص: ٥٤، ط: مکتبة البشري)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں