بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسچن عورت کے ساتھ مسلم مرد کے نکاح کرنے کا حکم


سوال

کیا کوئی مسلمان کر سچن عو ر ت سے نکاح کر سکتا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ مسلمان مرد کا نکاح عیسائی یا یہودی عورت کے ساتھ دو شرطوں کے ساتھ  جائز ہے :

1:وہ عورت حقیقت میں عیسائیہ یا یہودیہ ہو،لا مذہب اور دہریہ نہ ہو،اگر کوئی عورت صرف نام کی عیسائی ہو اور درحقیقت دہریہ ہو تو اس کےساتھ مسلمان کا نکاح جائز نہ ہوگا۔

2:وہ عورت اصل میں عیسائی یا یہودی ہو ،اسلام چھوڑ کر عیسائی یا یہودی نہ بنی ہو،اگر کوئی عورت مرتد ہوکر عیسائی یا یہودی بن جائے تو اس کےساتھ مسلمان کا نکاح جائز نہیں ہوگا۔

لہذا اگر کسی عورت کے بارے میں یقین ہوجائے کہ وہ اہلِ کتاب میں سے ہے تو اس کے ساتھ نکاح جائز ہوگا،اور اسی طرح کسی عورت کے بارے میں یقینی طورپر معلوم ہوجائے تو کہ وہ صرف نام کی عیسائی یا یہودی ہے ،حقیقت میں وہ دہریہ ہے تو اس کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہوگا۔

البتہ بہت سے مفاسد اور خرابیوں کی بناپر  جمہور صحابہ اور تابعین رضوان اللہ علیھم اجمعین اہل کتاب(عیسائی اور یہود ) کی عورتوں سے نکاح کو مکروہ سمجھتے تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اہلِ کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایاتھا،اس لیے ان کے ساتھ نکاح کرنے سے پرہیز کرنا لازم ہے،اور خاص کر موجودہ زمانے میں اکثر عیسائی اور یہودی صرف نام کے عیسائی اوریہودی ہیں کہ مردم شماری میں خود کو عیسائی یا یہودی ظاہر کرتے ہیں ،لیکن حقیقت میں وہ خدا کے وجود اور دین سماوی کے منکر ہیں،لہذا ان کے ساتھ نکاح سے پر ہیز کیا جائے۔

تفسیر مظہری میں ہے:

"وعموم  هذه الاية يقتضى جواز نكاح الكتابية الحربية وعليه انعقد الإجماع..لكنه يكره نكاح الكتابية مطلقا اجماعا لاستلزام النكاح مصاحبة الكافرة وموالاتها وتعريض الولد على التخلق بأخلاق الكفار لاجل مصاحبة الام وموانستها قال ابن همام نكح حذيفة وطلحة وكعب بن مالك كتابيات فغضب عمر رضى الله عنه فقالوا انطلق يا امير المؤمنين وهذه القصة تدل على جواز النكاح حتى يترتب عليه الطلاق وعلى كراهته."

(سورة المائدة،آيت:5، 41/3،ط:رشيدية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويجوز للمسلم نكاح الكتابية الحربية والذمية حرة كانت أو أمة، كذا في محيط السرخسي. والأولى أن لا يفعل."

(كتاب النكاح،الباب الثالث في المحرمات،‌‌القسم السابع المحرمات بالشرك،281/1،ط:رشيدية)

تفسیر معارف القران للکاندھلویؒ میں ہے:

"غرض یہ کہ کتاب وسنت نے مشرکین اور اہل کتاب میں فرق کیا ہے کہ مشرکین اور مشرکات کے ساتھ تو نکاح کو بالکلیہ ممنوع قرار دیااور اہل کتاب کے بارہ میں حکم دیاکہ مسلمان مرد کو تو کتابیہ عورت سے اس شرط کے ساتھ نکاح کی اجازت ہے کہ وہ مسلمان مرد اسلام کی قوی اور روشن حجتوں کے ذریعہ کتابیہ کو اور اس کے خاندان کے لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچ سکے اور اگر یہ اندیشہ ہو کہ کتابیہ سے نکاح کرنے کے بعد یہی خود اس کے حسن وجمال یا مال ومنال  کی وجہ سے اس کے ہاتھ بک جائے گا اور اپنی متاعِ ایمانی کو نصرانیت پر قربان کردے گا تو پھر کتابیہ کے ساتھ نکاح جائز نہ ہوگا۔"

(سورۂ مائدۃ،آیت:5 ، 447/2،ط:مکتبۃ المعارف ،شہداد پور)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401100655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں