بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

CCL نامی کمپنی میں انویسٹ کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں۔ ایک کمپنی سی۔سی۔ایل کے نام سےچلتی ہے۔جس میں لوگ اپنا پیسہ لگارہے ہیں کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ جہازرانی اور بندرگاہوں کی ترقی کیلے حکومت کے اشتراک سے کام کررہی ہے اور مختلف راستوں پر مختلف نفع کمپنی دے رہی ہے مثلاً اگر 5000روپیہ کوئی آدمی انویسٹمنٹ کرتا ہے تو 180 دن تک کیلیے%10پرسنٹ روزانہ منافع کے نام پر ایپ میں جمع ہوتے ہیں پانچ ہزار روپیہ پر روزانہ 180 دن تک 500روپیہ جمع ہوں گے اس طرح مدت ختم ہونے پر نوے ہزار۔اس کا مکمل نقشہ ۔ٹیلیگرام پر موجود ہے جس میں تفصیل دی گئ ہے ۔پھر ایک ممبر دوسروں کو ممبر بنائے گا تو مزید رقم حاصل ہو گی پھر وہ ممبر دوسروں کو ممبر بنائے گا اور وہ کمپنی میں رقم لگاۓگا تو کمپنی اس کا نفع بھی پہلے والے ممبر کو دیتی چلی جائیگی ہمارے شہر میں بہت سے مسلمان اس میں شریک ہورہے ہیں۔ کیا ایسی کمپنی میں رقم لگا کر نفع حاصل کرنا درست ہے جبکہ نقصان کا کوئی احتمال نہیں اور نفع کی رقم بھی متعین ہے او رکیا دوسروں کو ممبر بنا کر کمپنی کی طرف سے دی جانے والی رقم استعمال کرنا درست ہے ؟

جواب

صورت مسئولہ میں کمپنی کے کاروبار کے طریقہ میں دو قسم کی قباحت ہے:

پہلی قباحت یہ ہے کہ کمپنی رقم انویسٹ کرنے کے بعد متعین نفع دے رہی ہے، جو شرعی رو سے جائز نہیں، اس لئے کہ شریعت کے اندر مضاربت کے اصولوں میں سے ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ نفع  رقم کی صورت میں متعین نہ ہو بلکہ فریقین کے مابین حاصل ہونے والے حقیقی نفع کے  فیصد کے اعتبار سے نفع متعین ہو، ورنہ سود کے زمرے میں آئے گا، اور زیر نظر کمپنی میں کمپنی کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پ 180دنوں تک پانچ ہزار روپے پر 500 روپے بطور نفع جمع ہوتے ہیں۔

اور دوسری قباحت یہ ہے کہ اس میں ایک ممبر اگر دوسروں کو ممبر بنائے گا اور وہ ممبر کئی دوسرے کو ممبر بنائے گا تو کمپنی اس دوسرے ممبر کا نفع بھی پہلے والے ممبر کو دیتی ہے تو اس میں ملٹی لیول مارکیٹنگ کا عنصر بھی پایا جارہا ہے اور یہ بھی شرعی رو سے جائز نہیں ہے؛ لہذا مذکورہ کمپنی میں رقم انویسٹ کرکے نفع حاصل کرنا جائز نہیں۔

مسند أحمد میں ہے:

عن عباية بن رفاعة بن رافع بن خديج، عن جده رافع بن خديج، قال: قيل: يا رسول الله، ‌أي ‌الكسب ‌أطيب؟ قال: " عمل الرجل بيده وكل بيع مبرور".

(‌‌مسند الشاميين‌‌، حديث رافع بن خديج: 28/ 502، ط: مؤسسة الرسالة)

کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ:

"فیشترط للشرکة بجمیع أنواعھا أمران:… ثانیها: وهو متعلق بالربح أن یکون الربح جزأً شائعًا معلومًا… فإن کان مجهولاً أو معینًا بعدد فإن العقد یفسد… أمّا الأوّل فلأنّ الجھالة في الربح توجب النزاع."

(مباحث الشرکة، شروط الشرکة وأحکامھا: 3/ 78، ط: دار إحیاء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں