بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

فیصلہ سے پہلے فریقین کا پیسے جمع کرانا اور کیس جیتنے والے فریق کا وہ رقم لینا


سوال

 ایک فریق دوسرے فریق کو کہتا ہے،  ہمارا حق آپ کی طرف ہے ، بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں،  لیکن دوسرا فریق کہتا ہے کہ ایک شرط پر ہم بیٹھیں گے کہ آپ پانچ لاکھ روپیہ پہلے ایک ضامن کو دیں،  پانچ لاکھ روپیہ ہم دیں گے،  اگر آپ فیصلہ ہار گئے تو آپ کے  پانچ لاکھ ہمیں ملیں  گیں،  اگر ہم فیصلہ ہار گئے تو ہمارا پانچ لاکھ آپ کو ملے گا،   کیا شریعت میں اس قسم کا فیصلہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

 شریعتِ مطہرہ میں  فریقین میں باہم فیصلہ کے لیے جو ضابطہ ہے وہ یہ ہے کہ مدعی  یعنی دعویٰ کرنے والے کے ذمہ گواہ پیش کرنا لازم ہیں، اور اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں یا وہ پیش نہ کرسکے تو جس پر دعوی ہے  اس پر قسم ہے، اگر وہ قسم کھالے تو فیصلہ اس کے حق میں  ہوجاتا ہے اور اگر وہ قسم کھانے سے انکار کردے یا مدعی گواہ پیش کردے تو دونوں صورتوں میں فیصلہ مدعی کے حق میں ہوگا،  اور جس کے حق میں فیصلہ ہوجائے تو وہ  اپنے حق کو وصول کرنے کا حق دار ہوجاتا ہے، لیکن جس کے حق میں فیصلہ نہ ہو اس پر اضافی طور پر کوئی جرمانہ لگانا یا یا اس سے ضمانت یا کسی بھی نام سے کوئی رقم لینا جائز نہیں ہے۔

لہذا  صورتِ  مسئولہ میں  ایک فریق کا دوسرے فریق کو یہ کہنا  کہ :" ایک شرط پر ہم بیٹھیں گے کہ آپ پانچ لاکھ روپیہ پہلے ایک ضامن کو دیں،  پانچ لاکھ روپیہ ہم دیں گے،  اگر آپ فیصلہ ہار گئے تو آپ کے  پانچ لاکھ ہمیں ملیں  گیں،  اگر ہم فیصلہ ہار گئے تو ہمارے پانچ لاکھ آپ کو ملیں گے "  شرعی طور پر یہ  ناجائز اور حرام ہے،  یہ کیس ہارنے والے فریق پر مالی جرمانہ کے ساتھ ساتھ "جوا" کی صورت پر بھی مشتمل ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

''وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال''۔(4/61)

      مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"عن ابن سیرین قال: کل شيء فیه قمار فهو من المیسر".(4/483، کتاب البیوع  والاقضیہ، ط؛ مکتبہ رشد، ریاض)

أحکام القرآن  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".

(احکام القرآن للجصاص، 1/ 398،  باب تحریم المیسر، سورۃ البقرۃ، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

 

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 (6 / 403، کتاب الحظر والاباحۃ، ط ؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200864

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں