بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کارٹون دیکھنا


سوال

کیا میں ایسے کارٹون دیکھ سکتا ہوں جو اصلی شخص کی تصویر نہ ہو بلکہ وہ ایک فرضی تصویر ہو اور کوئی خلاف شریعت بات نہ ہو مگر فن (مزہ) کے لیے ہوں_ میں آپ کو ایک تصویر کی لنک دے رہا ہوں جو ایسے کارٹون کی ہے جیسے میں نے بتایا۔

جواب

کارٹون  عمومًا جان دار کی تصاویر  پر مشتمل ہوتے ہیں اور  از روئے شرع کسی بھی جان دار کی تصویر(چاہے وہ حقیقۃً کسی شخص کی عکاسی کرتی ہو یا فرضی تصویرہو)   بنانا، رکھنا اور  دیکھنا قطعاًجائز نہیں، نیز اگر مذکورہ کارٹون موسیقی پر  مشتمل ہوں تو یہ مزید خرابی ہے، کیوں کہ موسیقی کا سننا بھی شرعًا حرام ہے۔نیز اس میں وقت کا ضیاع بھی ہے، مزید یہ کہ ان میں موجود کردار عموماً ایسے لباس میں ہوتے ہیں جس سے لباس کی اہمیت کم ہوتی ہے اور فحاشی و عریانیت کو فروغ ملتا ہے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں ایسے کارٹون دیکھنا (چاہے تفریح کی غرض ہو یا کسی اور غرض سے )جائز نہیں ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ."

( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1، ص:667، ط: سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

وفي شرح السنة: اتفقوا على تحريم المزامير والملاهي والمعازف، وكان الذي سمع ابن عمر صفارة الرعاة، وقد جاء مذكورا في الحديث، وإلا لم يكن يقتصر فيه على سد المسامع دون المبالغة في الرد والزجر، وقد رخص بعضهم في صفارة الرعاة اهـ.

ولعله كان صاحب اليراع يهوديا، من أهل الذمة أو بعيدا عن المواجهة، هذا وفي فتاوى قاضي خان: أما استماع صوت الملاهي كالضرب بالقضيب ونحو ذلك حرام ومعصية لقوله عليه السلام: " «استماع الملاهي معصية، والجلوس عليها فسق، والتلذذ بها من الكفر» " إنما قال ذلك على وجه التشديد وإن سمع بغتة فلا إثم عليه، ويجب عليه أن يجتهد كل الجهد حتى لا يسمع لما روي أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أدخل أصبعه في أذنيه، وأما قراءة أشعار العرب ما كان فيها من ذكر الفسق والخمر والغلام مكروه؛ لأنه ذكر الفواحش (رواه أحمد، وأبو داود)

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، كتاب الآداب، باب البيان والشعر، الْفَصْلُ الثَّالِثُ، 7/ 3025، الناشر: دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504100543

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں