اگر کوئی سامان امپورٹ کرتے ہیں تو کسٹم ڈیوٹی دینی پڑتی ہے جو کہ کافی زیادہ ہے اور اگر یہی سامان ہم کیری carry منگوائیں تو ہم کو کسٹم ڈیوٹی کے مقابلہ میں کیری والے بندہ کو کم رقم دینا ہوتی ہے، ممکن ہے اس کا مال کو کلیئر کروانے کا طریقہ غلط ہو مگر ہم اس کو رقم دیں گے اور وہ ہمیں سامان دے گا تو اس صورت میں کیری والے سے کام کرنا درست ہے ؟
نوٹ: ایک یونٹ پر دو سو روپے کی بچت ہوتی ہے؛ لہذا اکثر لوگ کیری سے کام کرتے ہیں جب ہی مارکیٹ میں ان کا ریٹ سستا اور کسٹم ڈیوٹی ادا کرنے والوں کا مہنگا ہوتا ہے، جس سے خریدار متوجہ نہیں ہوتا کہ ایک چیز پر دو سو روپے کا فرق ہے۔(یعنی جو کیری سے منگواتا ہے وہ سستی فروخت کرتا ہے اور کسٹم ڈیوتی ادا کرتا ہے وہ مہنگی فروخت کرتا ہے)
اگر کیری کرنے والے شخص سے متعین اجرت کے بدلے میں مال پہنچانے کا معاہدہ ہوجائے ، اور وہ مال پہنچادے تو اس کے ذریعے سامان منگوانا جائز ہے، باقی کیری والے کس طرح مال لاتے ہیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے، اگر سامان لاتے ہوئے کوئی غیر شرعی کام کرتے ہیں تو اس کا وبال ان ہی پر ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية. (وأما) (ركنها) فالإيجاب والقبول بالألفاظ الموضوعة في عقد الإجارة."
(4/ 409 ، كتاب الإجارة، ط: رشيدية)
وفیہ ایضاً:
"ثم الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها، كذا في شرح الطحاوي. وكما يجب الأجر باستيفاء المنافع يجب بالتمكن من استيفاء المنافع إذا كانت الإجارة صحيحة حتى إن المستأجر دارا أو حانوتا مدة معلومة ولم يسكن فيها في تلك المدة مع تمكنه من ذلك تجب الأجرة، كذا في المحيط."
(4 / 413، کتاب الاجارۃ، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112201524
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن