بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کاڑڈ پر ڈسکاونٹ لینا


سوال

میرا  اَکاؤنٹ  میزان بینک  میں ہے اور   میں اپنے اَکاونٹ کا اے ٹی ایم کارڈ  استعمال کرتا ہوں، کبھی کھبی بعض ریسٹورانٹ میں کارڈاستعمال کرنے پر 20سے 25 % فرسنٹ ڈسکاؤنٹ  دیا جاتاہے، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

ڈیبٹ کارڈ (Debit Card) یا اے ٹی ایم کارڈ بنوانا اور اس کا استعمال کرنا بذاتِ خودجائز ہے، اس کارڈ کے ذریعہ آدمی اتنے ہی پیسوں کی خریداری کرسکتا ہے جتنی رقم اس کے اکاؤنٹ میں موجود ہے، اس کے حاصل کرنے کے لیے سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا، اورسود لینے دینے کی نوبت نہیں آتی، البتہ ڈیبٹ کارڈکے ذریعہ ادائیگی کی صورت میں اگر کچھ پیسوں کی رعایت (Discount) ملتی ہے  تو معلوم کرنا چاہیے کہ وہ رعایت بینک کی طرف سے مل رہی  ہے یا جہاں سے خریداری کی ہے ان کی طرف  سے؟ اگر یہ رعایت بینک کی طرف سے ملتی ہوتو اس صورت میں رعایت حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہوگا، کیوں کہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔البتہ اگر یہ رعایت  اس ادارے کی جانب سے ہو جہاں سے خریداری کی جارہی ہے تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔اور اگر  یہ  رعایت دونوں کی طرف سے مشترکہ طو رپر مل رہی ہو تو جتنی رعایت بینک کی طرف سے مل رہی ہے اس سے استفادہ کرنا جائز نہیں ہوگا۔ اور اگر یہ بات پتہ نہ چل سکتی ہو کہ یہ رعایت کارڈ ہولڈر کو بینک یا متعلقہ ادارے کی طرف سے مل رہی ہے تو  احتیاطًا  ڈیبٹ کارڈ سے مذکورہ سہولت حاصل نہ کی جائے۔

واضح رہے کہ کریڈٹ کارڈ بنانا ہی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ اسے بناتے وقت سودی معاہدہ کرنا پڑتا ہے کہ اگر مقررہ وقت تک قرض ادا نہیں کیا گیا تو اضافی رقم ادا کرنی ہوگی، اور یہ صریح سود ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں