بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایکسیڈنٹ میں سواریوں کے ہلاک ہوجانے کی صورت میں دیت کا حکم


سوال

ڈرائیور کی غفلت کی وجہ سے اگر حادثہ ہوجاتا ہے،غفلت سے مراد گاڑی تیز چلانا، ڈرائیور کا نشے میں ہونا یا کئی دنوں سے نیند کا پورا نہ ہونا ؛کیوں کہ اُن کا سیزن ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ سوتے نہیں وغیرہ وغیرہ اور حادثے کی صورت میں کچھ سواریوں کی موت واقع ہوجاتی ہے، تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا اور شریعت کا کیا حکم ہے؟ (کیوں کہ کراچی سے کوئٹہ جانے والی بسیں آئے دن حادثے کا شکار ہوتی ہیں، جن میں زیادہ تر غفلت کی وجہ سے حادثے ہوتے ہیں)۔

جواب

واضح رہے کہ گاڑی کے ایکسیڈنٹ ہونے کی صورت میں تفصیل ہے :

1)اگر  دو گاڑیاں آپس میں ٹکرائیں،ایسی صورت میں دونوں ڈرائیور کے عاقلہ دوسری گاڑی کے سواروں کے لیے دیت کے ضامن ہوں گےجب کہ  مالی نقصان ڈرائیور کے ذاتی مال سے ادا کیا جائے گا،نیز ڈرائیور پر  کفارہ کے ساٹھ  مسلسل روزےرکھنا لازم ہوں گے۔

2)اگرکسی گاڑی کاتنہاء ایکسیڈنٹ ہو جائے تو ڈرائیور کے عاقلہ سواریوں اور راستے میں  دیگر جاں بحق ہونے والوں کی دیت کے ضامن ہوں گے، مالی نقصان ڈرائیور کےذاتی  مال سے ادا کیا جائے گا، چاہے ڈرائیور کی غلطی ہو یا نہیں ہو  ،نیز ڈرائیور پر کفارہ کے ساٹھ روزے مسلسل رکھنا  لازم ہوں گے۔

3)اگر ڈرائیور اپنے راستے پر محتاط اور درست طریقے سے گاڑی چلا رہا تھا اور کوئی شخص بھاگ کر اس کے راستے میں آگیا یا گاڑی غلط طریقہ سے چلا کر  اس کے سامنے لایا ،یا مثلاً کوئی سگنل توڑ کر روڈ پار کرتے ہوئے گاڑی سے ٹکرا کر جاں بحق ہو گیا کہ ڈرائیور کے لیے گاڑی روکنا اور اسے بچانا ممکن نہیں تھا،جس طرح ٹرین کی پٹری پر کوئی آ گیا ،ایسی صورت میں ڈرائیور پر کوئی ضمان لازم نہیں ہوگا۔

مبسوط میں ہے:

"(قال: - رحمه الله -) وإذا سار الرجل على دابة أي الدواب كانت في طريق المسلمين فوطئت إنسانا بيد أو رجل وهي تسير فقتلته فديته على عاقلة الراكب، والأصل في هذا أن السير على الدابة في طريق المسلمين مباح مقيد بشرط السلامة بمنزلة المشي فإن الحق في الطريق لجماعة المسلمين وما يكون حقا للجماعة يباح لكل واحد استيفاؤه بشرط السلامة؛ لأن حقه في ذلك يمكنه من الاستيفاء ودفع الضرر عن الغير واجب عليه فيقيد بشرط السلامة؛ ليعتدل النظر من الجانبين، ثم إنما يشترط عليه هذا القيد فيما يمكن التحرز عنه دون ما لا يمكن التحرز عنه؛ لأن ما يستحق على المرء شرعا يعتبر فيه الوسع ولأنا لو شرطنا عليه السلامة عما لا يمكن التحرز عنه تعذر عليه استيفاء حقه؛ لأنه لا يمتنع من المشي، والسير على الدابة مخافة أن يقتل بما لا يمكن التحرز عنه فأما ما يستطاع الامتناع عنه لو شرطنا عليه صفة السلامة من ذلك لا يمتنع عليه استيفاء حقه، وإنما يلزمه به نوع احتياط في الاستيفاء إذا عرفنا هذا، فنقول: التحرز عن الوطء على شيء في وسع الراكب إذا أمعن النظر في ذلك، فإذا لم يسلم كان جانيا وهذه جناية منه بطريق۔المباشرة؛ لأن القتل إنما حصل بفعله حين كان هو على الدابة التي وطئت فتجب عليه الكفارة وعلى عاقلته الدية، وإن نفحته برجلها وهي تسير فلا ضمان على الراكب لقوله - عليه السلام - «الرجل جبار» أي هدر."

(باب جناية الراكب،ج26،ص188،ط:دار المعرفة)

نہایہ شرح ہدایہ :

"وإن كان صاحب الدابة راكبا على الدابة والدابة تسير إن وطئت بيدها أو رجلها [يضمن] وإن كدمت أو نفحت بيدها أو رجلها أو ضربت بذنبها فلا ضمان؛ لأن في الوجه الأول صاحب الدابة مباشر للإتلاف؛ لأن ثقله وثقل الدابة اتصل بالمتلف فكأنهما وطئاه جميعا، ولهذا يجب على الراكب الكفارة إذا وطئت الدابة بيدها أو رجلها ويحرم عن الميراث والمباشر ضامن سواء كان متعديا أو لم يكن."

(‌‌كتاب الديات،ضمان الراكب لما وطئت الدابة،ج24،ص283،ط:مركز الدراسات الإسلامية بكلية الشريعة والدراسات الإسلامية بجامعة أم القرى)

النہایہ شرح ہدایہ میں ہے:

"لأن الراكب مباشر فيه والدليل على أنه مباشر من حيث حكم الشرع أن من سار على دابته في ملكه فأوطأت إنسانا بيد أو رجل فقتلته فعليه الدية والكفارة؛ لأن الراكب مباشر للقتل فيما أوطأت دابته والمباشرة في ملكه وغير ملكه سواء في إيجاب الضمان عليه كالرمي فإن من رمى في ملكه فأصاب إنسانا كان عليه ضمانه كذا في المبسوط."

(‌‌كتاب الديات،الراكب مباشر،ج24،ص288،ط:مركز الدراسات الإسلامية بكلية الشريعة والدراسات الإسلامية بجامعة أم القرى)

ہدایہ میں ہے:

"قال: (ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ) ، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه، وضمان المال في ماله."

 

(‌‌كتاب الديات،‌‌باب جناية البهيمة والجناية عليها،ج4،ص482،ط:دار احياء التراث العربي)

ہدایہ میں ہے :

قال: "‌وإذا ‌اصطدم ‌فارسان ‌فماتا ‌فعلى ‌عاقلة ‌كل ‌واحد ‌منهما ‌دية ‌الآخر" ....... ولنا أن الموت يضاف إلى فعل صاحبه لأن فعله في نفسه مباح وهو المشي في الطريق فلا يصلح مستندا للإضافة في حق الضمان، كالماشي إذا لم يعلم بالبئر ووقع فيها لا يهدر شيء من دمه، وفعل صاحبه وإن كان مباحا، لكن الفعل المباح في غيره سبب للضمان كالنائم إذا انقلب على غيره. وروي عن علي رضي الله عنه أنه أوجب على كل واحد منهما كل الدية."

(‌‌كتاب الديات،‌‌باب جناية البهيمة والجناية عليها،ج4،ص481،ط:دار احياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100534

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں