بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چند متفرق سوالات


سوال

 1۔ گستاخ رسول کی توبہ قبول ہے یا نہیں ؟ اگر قبول نہیں تو عام آدمی اس کو قتل کرسکتا ہے کہ نہیں؟

"كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ  ."الخ اس آیت کے مصداق کون لوگ ہیں؟تبلیغ والے یا مجاہدین۔

3۔ دور حاضر میں تبلیغ فرض کفایہ ہے یا فرض عین؟

4۔ ارطغرل ڈرامے میں بعض مسلمان عیسائیوں کے اقوال و افعال اختیار کر لیتے ہیں توآیا یہ مسلمان جو ان عیسائیوں کے اقوال وافعال اختیار کرتے ہیں تو کیا یہ مسلمان اس سے کافر ہوجاتے ہیں یا نہیں؟ مندرجہ بالا مسائل کا جواب با حوالہ عطا فرماکر مشکور فرمائیں۔

جواب

1-صورت مسئولہ میں جو آدمی سیّد الاولین وآلاخرین،  رحمۃ للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی  شان اقدس میں گستاخی کرتاہے وہ آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق اور ملحد ہے۔ اگر ایسا آدمی کسی مسلمان ملک میں ایساجرم کرتاہے  اوراس پراقرار یاگواہ ہوں تو اس کو قتل کرنا مسلمانوں کی حکومت پر واجب ہے اور مشہور قول کے مطابق اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور جو اس کے کفر میں شک کرتاہے وہ بھی کافر ہے۔اس پر امت کا اجماع ہے۔

نیز پاکستان  کے قانون کے آرٹیکل 295 C  کے تحت گستاخِ رسول ﷺ کی سزا بطورِ حد قتل ہے۔اور اس جرم کے پائے جانے اور اقرار یا شرعی گواہوں کی گواہی سے یہ  ثابت ہو جانے کی صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس سزا کا اطلاق کرے۔فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ گستاخِ رسول کی سزا بطورِ حد ہے، لہٰذا توبہ کرنے سے بھی یہ سزا اس سے معاف نہیں ہوگی۔

تاہم یہ بات ضرور پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اس طرح کی سزاوٴں کا اجرا حکومت کا کام ہے، ہرکس و ناکس اس طرح کی سزا جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔بلکہ قانونی چارہ جوئی کرکے حکومت سے سزا دلوائی جائے۔

 شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ   اپنی مشہور و معروف  کتاب  "الصارم المسلول علی شاتم الرسول" میں نقل فرماتےہیں:

"ان من سب النبی صلی الله علیه وسلم من مسلم أو کافر فإنه یجب قتله، هذا مذهب علیه عامة أهل العلم. قال ابن المنذر: أجمع عوام أهل العلم علی أن حد من سب النبی صلی الله علیه وسلم : القتل ، وممن قاله مالك و اللیث و أحمد واسحق وهو مذهب الشافعي ... و قد حکى أبوبکر الفارسي من أصحاب الشافعي إجماع المسلمین علی أن حد من سبّ النبي صلى الله علیه و سلم القتل ... و قال محمد بن سحنون: أجمع العلماء علی أنّ شاتم النبي صلی الله علیه و سلم و المُتَنَقِّص له کافر، و الوعید جاء علیه بعذاب الله له و حکمه عند الأمة القتل، و من شك في کفره و عذابه کفر ... أنّ السابّ إن کان مسلمًا فإنه یکفر و یقتل بغیر خلاف و هو مذهب الأئمة الأربعة وغیرهم."

( الصارم المسلول علی شاتم الرسول،امام ابن تیمیه، المسئلة الاولی ص:3 و4ط:الحرس الوطنی،السعودیۃ )

ترجمہ : عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو آدمی خواہ مسلمان ہو یا کافر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے، اس کی حد قتل کرنا ہے اور اسی بات کو امام مالک، امام لیث، امام احمد، امام اسحاق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے.اور ابوبکر فارسی نے اصحابِ امام شافعی سے مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے ... محمد بن سحنون نے فرمایا: علماء کا اجماع ہے کہ شاتم رسول اور آپ کی توہین وتنقیصِ شان کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کے لیے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم ،قتل ہے۔ اور جو آدمی اس شخص کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہو گا ... اگر گالی دینے والا مسلمان ہے تو وہ کافر ہوجائے گا اور بلا اختلاف اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اور یہ ائمہ اربعہ وغیرہ کا مذہب ہے۔

"الدرالمختار "میں ہے:

" و في الأشباه: و لاتصح ردة السکران إلا الردة بسبّ النبي صلی الله علیه وسلم فانه یقتل و لایعفی عنه."

(الدر المختار، کتاب الجهاد، باب المرتد، (4 - 224) ط:سعید کراچی)

ترجمہ:"اشباہ " میں ہے کہ نشہ میں مست آدمی کی ردّت (مرتدہونے)کا اعتبار نہیں ہے ،البتہ اگر کوئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے مرتد ہوجاتاہے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس گناہ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔

2۔مذکورہ آیت  کاپہلا مصداق  صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  ہیں ،پھروہ لوگ ہیں  جو   صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  کے  طریقہ پرچلیں ۔امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ  کاارشادگرامی ہے:

"عن السدي: {كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر}، قال عمر بن الخطاب: لو شاء الله لقال: " أنتم "، فكنا كلنا، ولكن قال: " كنتم " في خاصة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومن صنع مثل صنيعهم، كانوا خير أمة أخرجت للناس، يأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر."

(تفسیرالطبری،آل عمران:(110) 101/7 ط:جامع البیان)

مزید وضاحت کےلئےمعارف القرآن  کی درج ذیل عبارت  ملاحظہ  کی جائے،حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب  رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

"اس آیت میں امت محمدیہ کے خیر الامم ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ خلق اللہ کو نفع پہنچانے ہی کے لئے وجود میں آئی ہے، اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ خلق اللہ کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کی فکر اس کا منصبی فریضہ ہے اور پچھلی سب امتوں سے زیادہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تکمیل اس امت کے ذریعہ ہوئی، اگرچہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ پچھلی امتوں پر عائد تھا، جس کی تفصیل احادیث صحیحہ میں مذکور ہے، مگر اول تو پچھلی بہت سی امتوں میں جہاد کا حکم نہیں تھا، اس لئے ان کا امر بالمعروف صرف دل اور زبان سے ہوسکتا تھا، امت محمدیہ میں اس کا تیسرا درجہ ہاتھ کی قوت سے امر بالمعروف کا بھی ہے جس میں جہاد کی تمام اقسام بھی داخل ہیں، اور بزور حکومت اسلامی قوانین کی تنفیذ بھی اس کا جزء ہے، اس کے علاوہ امم سابقہ میں جس طرح دین کے دوسرے شعائر غفلت عام ہو کر محو ہوگئے تھے، اسی طرح فریضہ امر بالمعروف بھی بالکل متروک ہوگیا تھا، اور اس امت محمدیہ کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پیشگوئی ہے کہ " اس امت میں تا قیامت ایک ایسی جماعت قائم رہے گی جو فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قائم رہے گی ۔"

(تفسیر معارف القرآن         ،آل عمران:110 (2۔149و150)ط:کراچی)

3۔دین کی تبلیغ فرض کفایہ ہے،یعنی نماز کی طرح تمام مسلمانوں پر تبلیغ کرنا فرض عین نہیں؛ بلکہ یہ دعوت و تبلیغ فرض علی الکفایہ ہے کہ دنیا کے کچھ مسلمانوں نے بھی یہ فریضہ انجام دیا تو سب مسلمانوں کے سر سے فریضہ اتر جائے گا،اورجوانجام دیں گےان کوثواب ملے گااورجوانجام نہیں دیں گے  ان کوثواب نہیں ملے گا۔

قرآن کریم میں ہے:

"وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ."  ( آل عمران: ١٠٤)

 اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کام کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اور ایسے لوگ پورے کامیاب ہونگے۔ (ترجمہ ازحضرت تھانوی رحمہ اللہ)

علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"أن العلماء اتفقوا على أن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر من فروض الكفايات ولم يخالف في ذلك إلا النزر."

(تفسير  روح المعاني،آل عمران:104 (2/ 238)ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

”تبلیغ دین ہر زمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے لیکن فرض علی الکفایہ ہے، جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صراحت قرآن کریم میں ہے ،سب سے بڑا معروف ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر کفر ہے، ہر مومن اپنی اپنی حیثیت کے موافق مکلف ہے کہ خدائے پاک کے نازل فرمائے ہوئے دین کو حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے موافق پہونچاتا رہے“ ۔

(فتاوی محمودیہ،باب التبلیغ،(4۔203و204) ط:فاروقیہ)

4۔ واضح رہے کہ مسلمان کے  لیے غیر مسلموں کے ایسے افعال اور اقوال اختیار کرنا جوشرعی تعلیمات کےخلاف ہوں اگرچہ بطور ڈرامہ کے ہی کیوں نہ اختیار کئےگئے ہوں ناجائز اورحرام ہیں ،ان سے بچنا ضروری ہے۔

نیز اگر کوئی مسلمان غیر مسلموں کے ایسے اقوال جان بوجھ کرزبان سے کہے جوکفریہ ہوں ،چاہے وہ کلمات غصے میں یا مذاق میں کہے ہوں ان سے وہ دائر اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس طرح کہنے والے  کا نکاح ختم ہوجائے گا اور اس کے ذمہ لازم ہوگا کہ فورًا اپنے اسلام اورنکاح کی تجدید کرے۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحرمیں ہے:

"فما يكون كفرًا بالاتفاق يوجب إحباط العمل كما في المرتد وتلزم إعادة الحج إن كان قد حجّ ويكون وطؤه حينئذ مع امرأته زنا و الولد الحاصل منه في هذه الحالة ولد الزنا، ثم إن أتى بكلمة الشهادة على وجه العادة لم ينفعه ما لم يرجع عما قاله؛ لأنه بالإتيان بكلمة الشهادة لايرتفع الكفر، وما كان في كونه كفرًا اختلاف يؤمر قائله بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع عن ذلك احتياطًا، وما كان خطأً من الألفاظ لايوجب الكفر فقائله مؤمن على حاله ولايؤمر بتجديد النكاح ولكن يؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلك، هذا إذا تكلم الزوج، فإن تكلمت الزوجة ففيه اختلاف في إفساد النكاح، وعامة علماء بخارى على إفساده لكن يجبر على النكاح ولو بدينار وهذا بغير الطلاق".

(مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحر "(1/ 687 ـ 688) ط:داراحیاء التراث العربي)

علامہ  شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

" قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ".

(ردالمحتارعلی ٰالدر المختار ، باب المرتد(4/ 224)ط:سعید)
 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں