بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کینسر کا روحانی علاج / بیعت کا حکم


سوال

۱۔ کیا قرآن یا حدیث میں کہیں کینسر کے علاج کا ذکر ہے ؟

۲۔ کیا اسلام میں بیعت کی اجازت ہے،  اگر ہاں تو پھر کس سے اور کیسے کی جاسکتی ہے؟

جواب

۱۔ قرآن و حدیث میں باقاعدہ کینسر کا علاج  تو کہیں مذکور نہیں ہے البتہ  ذیل میں  کچھ معمولات ذکر کیے جاتے ہیں ، جن میں سے کسی ایک پر یا ہوسکے تو سب پر عمل کرلیجیے ان شاء اللہ تعالیٰ فائدہ ہوگا:

     1- دن میں تین یا سات مرتبہ سورۃ الرحمن پڑھا کریں۔

     2- سورہ یس 41 مرتبہ اور سورہ تغابن 41  مرتبہ  پڑھ  کر پانی  پر دم کرکے رکھ لیا جائے اور مریض کو وہی پانی پلایا جائے۔(کئی افراد مل کر بھی یہ تعداد پوری کرسکتے ہیں) 

     3۔ کثرت کے ساتھ درج ذیل دعا کا اہتمام کریں:

اَللّهمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ البَرصِ وَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ مِنْ سَيْئِ الأسْقَامِ.

۲۔ واضح رہے کہ ہر انسان پر اپنے نفس کی اصلاح واجب ہے، اس کے لیے جس طرح دیگر ذرائع ہیں اسی طرح کسی سے بیعت ہوجانا بھی ایک مؤثر اور کامیاب ذریعہ ہے، اب ہر ایک کے لیے یہ ضروری تو نہیں ہے، لیکن انسان اگر خود رائی کو  وطیرہ بنالے تو  ذاتی و اجتماعی، دینی و دنیاوی معاملات میں اس سے غلطی کا احتمال زیادہ رہتاہے، جب کہ کسی متبعِ شریعت بزرگ کو اپنا بڑا بناکر اس کی راہ نمائی اور مشورے سے امور انجام دینے میں غلطی اور نقصان کا امکان بہت کم ہوجاتاہے، لہٰذا اگر کسی کو ایسے دین دار اساتذہ اور والدین میسر ہیں جو اس کی ہر موڑ پر راہ نمائی کرتے ہوں، اور وہ ان کا فرماں بردار ہو اور ان سے گہرا ربط رکھتاہو تو اسے باقاعدہ بیعت ہونے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن یہ بات شاذ ونادر کسی کو میسر ہوتی ہے، لہذا بہتر  یہ ہے کہ کسی متبعِ سنت و شریعت کے پابند بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر باقاعدہ ان سے اصلاحی تعلق قائم کرلیاجائے، اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اس کی اصلاح صرف کسی سے بیعت ہوکر یعنی کسی کی مریدی اختیار کرلینے سے ہی ہوسکتی ہے تو ایسے شخص کے لیے تو کسی متبعِ سنت بزرگ سے بیعت ہونا ضروری ہے اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ کسی سے بیعت ہوئے بغیر  کسی معتبر شرعی ذریعہ سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ذریعہ کو اختیار کرے۔

اس لیے نہ تو بیعت (پیری مریدی) کو مطلقاً لازم اور ضروری کہا جاسکتا ہے اور نہ ہی بالکلیہ اس کی اہمیت و افادیت کا انکار کیا جاسکتا ہے،  ہر شخص کے احوال کے اعتبار سے اس کا حکم مختلف ہوگا۔

چوں کہ  بیعت کا مقصد رشد و ہدایت اور اصلاح نفس ہے، اس لیے شیخ ( جس سے بیعت کی جائے ) میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے:

  1. کتاب و سنت کا ضروری علم رکھتا ہو خواہ  پڑھ کر یا علماء سے سن کر۔

  2. عدالت و تقوی میں پختہ ہو، کبائر سے اجتناب کرتا ہو، صغائر پر مصر نہ ہو۔

  3.  دنیا سے بے رغبت ہو (حبِ مال و حبِ جاہ سے خالی ہو)، آخرت میں رغبت رکھتاہو، طاعاتِ مؤکدہ و اذکار منقولہ کا پابند ہو۔

  4.  نیکیوں کا حکم کرتا ہو، برائیوں سے روکتا ہو۔

  5.  سلوک، تزکیۂ باطن کو معتبر مشائخ سے حاصل کیا ہو، اور ان کی صحبت میں طویل عرصہ رہا ہو۔

تلازم الشریعة  والطریقة میں ہے؛

"فشرط من ياخذ البيعة أمور، أحدها: علم الكتاب والسنة... والشرط الثاني: العدالة والتقوى، فيجب أن يكون مجتنبًا عن الكبائر غير مصر علي الصغائر... والشرط الثالث: أن يكون زاهدًا في الدنيا راغبًا في الأخرة، مواظبًا على الطاعات المؤكدة والأذكار المأثورة... والشرط الرابع: أن يكون آمرًا بالمعروف ناهيًا عن المنكر... والشرط الخامس: أن يكون صحب المشائخ وتأدب بهم دهرًا طويلًا وأخذ منهم النور الباطن والسكينة."

(ص:130، از  شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندہلوی رحمه اللہ، ط:مکتبہ حرمین، دبئی)

لہذا اگر کسی شیخ میں مندرجہ بالا شرائط موجود ہوں تو ان سے بیعت کی جاسکتی ہے۔ 

اور  چوں کہ بیعت کا مقصد اپنے نفس کی اصلاح ہے توسب سے پہلے یہ بھی دیکھ لیا جائے کہ ذاتی طور پر کن بزرگ سے اپنی مناسبت محسوس ہوتی ہے ، پھر جس بزرگ سے مناسبت اور انسیت ہوجائے ان کے پاس جاکر ان سے درخواست کی جائے اور ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دے کر بیعت کرلی جائے اور بیعت کرتے وقت تمام گناہوں سے سچی توبہ کرتے ہوئے آئندہ کسی قسم کا گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کیا جائے ، اور جیسے جیسے شیخ اعمال و ورود کی تلقین کریں ، ان پر پاندی سے عمل کیا جائے اور اپنے ذاتی احوال ان کے سامنے بغیر کسی حائل اور جھجھک کے پیش کیے جائیں تاکہ ان احوال کے مطابق وہ اصلاح و تربیت کرسکیں ، اسی طرح بیعت کا مقصد پوری طرح حاصل ہوگا۔

باقی جہاں تک بیعت کرنے کا طریقہ کار کا سوال ہے تو اس کےلیے ہر سلسلہ کے بزرگ کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے جو سلسلہ کے اکابرین سے چلتا آرہا ہوتا ہے ۔فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144210200355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں