بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کینیڈا میں رہنے والا زکات پاکستان میں ادا کرے، تو کس قیمت کا اعتبار ہوگا؟


سوال

میرا ایک دوست اس وقت کینیڈا میں فیملی کے ساتھ رہتا ہے،  کیا وہ زکات اور فطرانہ کینیڈا کرنسی کے حساب سے ادا کرے گا یا پاکستانی کرنسی میں؟ زکوٰۃ اور فطرانہ وہ پاکستان بھیجے گا،زکات اور فطرانہ وہ ہمیشہ پاکستان میں لوگوں کو دیتا ہے۔

جواب

جس جگہ اور جس ملک میں مال موجود ہو، اسی جگہ کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے زکات ادا کی جائے گی، لہٰذا اگر آپ کے دوست کا مال کینیڈا میں ہے، تو وہ اسی جگہ کی قیمت کے اعتبار سے زکات ادا کرے گا، چاہے پاکستان میں زکات بھجوائے، یا وہیں ادا کرے۔

اور جس جگہ پر آدمی خود موجود ہو، اسی جگہ کی قیمت کے اعتبار سے صدقہ فطر ادا کیا جائے گا،چاہے ادائیگی کسی بھی ملک یا شہر میں کی جائے،  لہٰذا آپ کے دوست کینیڈا میں ہیں، تو وہ اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر کینیڈا کی قیمت کے اعتبار سے ہی ادا کریں گے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.
(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه".

(کتاب الزکات، ج:2، ص:355، ط:سعید)

عنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"وطولب بالفرق بين هذه المسألة وبين صدقة الفطر في أنه اعتبر هاهنا مكان المال وفي صدقة الفطر من تجب عليه في ظاهر الرواية. وأجيب بأن وجوب الصدقة على المولى في ذمته عن رأسه فحيث كان رأسه وجبت عليه، ورأس مماليكه في حقه كرأسه في وجوب المؤنة التي هي سبب الصدقة فيجب حيثما كانت رءوسهم، وأما الزكاة فإنها تجب في المال ولهذا إذا هلك المال سقطت فاعتبر بمكانه."

(کتاب الزکاۃ، ج:2، ص:280، دار الفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"والمعتبر في الزكاة ‌مكان ‌المال في الروايات كلها، وفي صدقة الفطر مكان الرأس المخرج عنه في الصحيح مراعاة لإيجاب الحكم في محل وجود سببه كذا في فتح القدير وصحح في المحيط أنه في صدقة الفطر يؤدي حيث هو، ولا يعتبر مكان الرأس من العبد والولد؛ لأن الواجب في ذمة المولى حتى لو هلك العبد لم يسقط عنه فاختلف التصحيح كما ترى فوجب الفحص عن ظاهر الرواية والرجوع إليها، والمنقول في النهاية معزيا إلى المبسوط أن العبرة لمكان من تجب عليه لا بمكان المخرج عنه موافقا لتصحيح المحيط فكان هو المذهب؛ ولهذا اختاره قاضي خان في فتاويه مقتصرا عليه، وحكى الخلاف في البدائع فعن محمد يؤدي عن عبيده حيث هو، وهو الأصح."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:269، ط:دار الكتاب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں