بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیمرے کی تصویر کا حکم


سوال

موبائل کے کیمرے سے تصویر لینے کا کیا حکم ہے؟کیا یہ بھی ویسی ہی حرام ہے جیسے مجسمہ سازی حرام ہے؟ایک مشہور مفتی صاحب  کہتے ہیں کہ  یہ تصویر میں شامل ہی نہیں ہے ،ہمارے یہاں کچھ لوگ اس کو بھی علی الاطلاق حرام کہتے ہیں ۔ تفصیل سے جواب دیں۔

جواب

واضح رہے کہ دینِ اسلام میں صورت گری، و تصویر سازی کسی بھی شکل میں ہو، کسی بھی طریقے سے بنائی جائے، بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو، کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر بنائی جائے، حرام ہے، اس کے تنوع واختلاف سے صورت گری اور تصویر سازی کے حکم میں کوئی فرق یانرمی نہیں آتی، نصوص کی کثیر تعداداور بے شمار فقہی تصریحات اس مضمون کے بیان پر مشتمل ہیں، جو اہلِ علم سے مخفی نہیں ہیں۔

لہٰذا ڈیجیٹل تصویر (بشمول موبائل کیمرے سے لی گئی تصویر)اور ویڈیو سے متعلق    بھی ہمارے ادارے (جامعہ علوم اسلامیہ، علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن، کراچی) کا فتویٰ یہ  ہی ہے کہ یہ تصویر ہے اور  جس طرح کاغذ پر بنی ہوئی جان دار کی تصویر حرام ہے، اسی طرح  یہ بھی حرام ہے۔

جو حضرات ڈیجیٹل تصویر کو تصویر شمار نہیں کرتے یا جائز قرار دیتے ہیں، ان  کے پاس اپنے قول کے دلائل ضرور ہوں گے، لیکن ہمیں ان سے اتفاق نہیں ہے؛ اس لیے کہ  جان دار کی تصویر کی حرمت سے متعلق نصوص عام ہیں، نیز ہمارے اکابر  نے  جان دار کی تصویر سازی کو مطلقًا ناجائز قرار دیا ہے، خواہ تصویر بنانے کے لیے کوئی آلہ استعمال کیا جائے، اور قریب زمانے تک برصغیر کے اہلِ حق علماء کا تقریبًا اس پر اتفاق رہا ہے، بہرحال اگر اس مسئلے میں اہلِ علم کی آراء کا اختلاف معتبر مانا جائے تو بھی جان دار کی ڈیجیٹل تصویر کے ناجائز ہونے کو ہی ترجیح حاصل ہوگی، اس لیے کہ جس مسئلے میں جائز و ناجائز کا اختلاف ہو، وہاں ترجیح حرمت کو حاصل ہوتی ہے۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ جان دار کی تصویر خواہ ہاتھ سے کاغذ یا کسی چیز پر بنائی جائے یا کیمرے کے ذریعے بنائی جائے، یا ڈیجیٹل کیمرے سے جان دار کی ویڈیو بنائی جائے، بہرصورت ناجائز ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔

تفصیل کے لیے مفتی شعیب عالم صاحب کی کتاب ـ’’ڈیجیٹل تصویر‘‘ ملاحظہ فرما  کر تسلی کر سکتے ہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں