بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ربیع الثانی 1446ھ 09 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

کمیشن پر کام کرنا


سوال

میں ایک  بے روز گار آدمی ہوں، میں کمپیوٹر کے بارے میں جان رکھتا ہوں، سو  میں نے ذہن بنایا ہے کہ کمپیوٹر  خریدواؤں اور فروخت  کرواؤں، جس پر  میں اپنا کمیشن مقرر کروں گا، کیا یہ کمیشن میرے لیے جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں اگر سائل خریدار اور بیچنے والے سےپہلے سے  معاہدہ کر لیتا ہے کہ میں آپ کو کمپیوٹر خرید وادوں گا یا آپ کا کمپیوٹر فروخت کروادوں گا اور اپنی محنت کے عوض اتنا کمیشن لوں گا تو یہ کمیشن لینا  سائل کے لیے جائز ہوگا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’قَالَ فِي التتارخانية: وَفِي الدَّلَّالِ وَالسِّمْسَارِ يَجِبُ أَجْرُ الْمِثْلِ، وَمَا تَوَاضَعُوا عَلَيْهِ ... وَفِي الْحَاوِي: سُئِلَ مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أُجْرَةِالسِّمْسَارِ؟ فَقَالَ: أَرْجُو أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ كَانَ فِي الْأَصْلِ فَاسِدًا؛ لِكَثْرَةِ التَّعَامُلِ، وَكَثِيرٌ مِنْ هَذَا غَيْرُ جَائِزٍ، فَجَوَّزُوهُ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَيْهِ...‘‘ الخ

( مَطْلَبٌ فِي أُجْرَةِ الدَّلَّالِ ، ٦/ ٦٣، ط: سعيد)

وفیه أیضاً: ’’وَأَمَّا أُجْرَةُ السِّمْسَارِ وَالدَّلَّالِ فَقَالَ الشَّارِحُ الزَّيْلَعِيُّ: إنْ كَانَتْ مَشْرُوطَةً فِي الْعَقْدِ تُضَمُّ‘‘. (ه/ ١٣٦)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201923

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں