40 لاکھ پر جو آمدنی آتی ہے وہ میری والدہ کو چلی جاتی ہے تو کیا زکوٰۃ مجھے اب بھی دینی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ چالیس لاکھ کی رقم جو کاروبار میں لگی ہوئی ہے، وہ آپ کی والدہ کی ملکیت ہے تو اس رقم کی زکاۃ بھی انہیں پر لازم ہوگی، لیکن اگر یہ رقم آپ ہی کی ملکیت ہے اور آپ نے اسے کاروبار میں لگایا ہوا ہے اور کاروبار میں یہ جامد اثاثوں (مشینری، گودام، دکان وغیرہ) کی شکل میں نہیں ہے تو اس کی زکوٰۃ آپ کے ذمہ لازم ہے، اور وہ آمدنی آپ والدہ کو دے دیتے ہیں اس آمدنی کی زکوٰۃ آپ پر لازم نہیں ہے۔ اور اگر اس رقم کا کچھ حصہ جامد اثاثوں میں لگاہوا ہے، تو اس کے بقدر رقم کی زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔
پھرآمدنی کی وہ رقم جو والدہ کو ملکیتاً دیتے ہیں، اگر وہ نصاب کے بقدر ہو اور اس پر سال گزرجائے یا والدہ پہلے سے صاحب نصاب ہو تو سال پورا ہونے پر اس میں سے جو رقم بچی ہوئی ہو، ان کے دیگر اموال کی زکوٰۃ کے ساتھ اس کا بھی شمار ہوگا۔اور اس کی زکوٰۃ والدہ پر لازم ہوگی۔
الفقه الإسلامي وأدلته (3/ 234، بترقيم الشاملة آليا):
"يزكي رب المال (المالك) رأس المال وحصته من الربح، ويزكي العامل حصته من الربح، على النحو الآتي عند الفقهاء:
قال أبو حنيفة: يزكي كل واحد من المالك والعامل بحسب حظه أو نصيبه، كل سنة، ولايؤخر إلى المفاصلة، أي التصفية". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202421
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن