بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چہرے کا پردہ نہ کرانے والے سے منگنی کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کے میرا ایک رشتہ آیا ہوا ہے، وہ دنیاوی اعتبار سے بہت بہتر ہے ،اور آج کل ایسے رشتے نہیں ملتے، ہر لحاظ سے میچنگ(ذہنی ہم آہنگی) ہو رہی ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے لڑکے کو چہرے کے پردے پر اعتراض ہے ،اس کے مطابق چہرے کا پردہ فرض نہیں ہے ،اور وہ چاہتاہے کہ میں چہرے کا پردہ نہ کروں، لیکن عبایا لے سکتی ہوں اور حجاب سے سر ڈھانک سکتی ہوں۔

برائے مہربانی میری اس حوالے سے ہدایت فرما دیجئے کہ کیا ایسی صورت میں باقی سب چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس چیز پے جھکنا اور اسکی بات کو تسلیم کرنا صحیح ہوگا ؟ کیا ایسی صورت میں  گنجائش نکلتی ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعت نے عورت کے لیے غیر محرم سے پردہ  کرنےکولازم وضروری  قرار دیا ہے ، نیز اس پردہ کے حکم میں چہرہ بھی شامل ہے ، اپنے محارم کے سامنے   چہرےاور ہتھیلیوں  کے کھلا رکھنے کی  اجازت ہے،اس لیے   گھر سے باہر جانے کے لیے یا اجنبیوں کے سامنے چہرے   کابھی پردہ  کرنا لازم وضروری ہے ۔

رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی  اللہ عنہما آیتِ  قرآنی("يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ." ﴿الأحزاب: ٥٩﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

 روح المعاني میں ہے:

"وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه، وفي رواية أخرى عن الحبر رواها ابن جرير، وابن أبي حاتم وابن مردويه تغطي وجهها من فوق رأسها بالجلباب وتبدي عيناً واحدةً".

(تفسير سورة الاأحزاب ،11/ 264،ط:دارالكتب العلمية) 

"یعنی خدائے پاک نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے سروں اور چہروں کو ڈھانک کر نکلیں اور صرف ایک آنکھ  یا دو آنکھیں کھلی رکھیں۔"

نیز  بہت سی نصوص سے چہرے کا پردہ ثابت ہے، اور خیر القرون میں جب ازواجِ مطہرات اور صحابیات رضوان اللہ علیہن کو چہرے کے پردے کا حکم تھا، اور انہوں نے اس کا اہتمام کیا تو اس دور میں بدرجہ اولیٰ مؤمنات کو چہرے کے پردے کا اہتمام کرنا چاہیے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آیاتِ حجاب کی تفسیر میں چہرہ چھپانے اور صرف ایک یا دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی اجازت نقل فرمائی ہے، ان سب نصوص سے معلوم ہوا کہ چہرے کا پردہ اصل میں تو قرآن وحدیث سے ہی ثابت ہے؛ لہذا عورت جب بھی اپنے گھر سے نکلے  (خواہ بازار کے لیے ہو یا سفر کے لیے)  چہرے سمیت پورے بدن کے پردے کے ساتھ  نکلے، ورنہ گناہ ہوگا،  ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن سے سفرِ حج  کے دوران بھی پردے کی پابندی منقول ہے، باوجود یہ کہ قرآنِ پاک نے انہیں امت کی مائیں قرار دیا ، لیکن قرآنِ پاک نے ہی انہیں پردے کا بھی حکم دیا، اور مؤمنین کو حکم دیا کہ امہات المؤمنین سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے پوچھیں۔

بہرحال اجنبی کے سامنے عورت پر چہرے کا پردہ لازم ہے، اور اجنبی سے مراد ہر وہ شخص ہے جس سے عورت کا نکاح ہوسکتاہو، (مثلاً چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، بہنوئی، نندوئی، دیور وغیرہ) ان سب سے بھی چہرے کا پردہ کرنا چاہیے، اگر مشترکہ خاندانی رہائش ہو تو گھریلو امور انجام دیتے ہوئے بڑی چادر لے کر اس کا گھونگٹ بنالیا جائے؛ تاکہ چہرے پر نگاہ نہ پڑے۔

مولانا ادریس کاندہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے  {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ} کے تحت لکھا ہے :

’’عورت کو اپنی یہ زینتِ ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سربازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا۔‘‘

(معارف القرآن، کاندھلوی رح)

  لہذا  مذکورہ لڑکے کا مؤقف درست نہیں ہے ،اس لیے آپ کو چاہیے کہ اپنے والدین کو اعتماد میں لے کر لڑکے اور اس کے گھر والوں سے اچھے ماحول میں بات چیت کرکے انہیں شرعی پردہ پر راضی کیا جائے، اگر وہ پھر بھی نہ مانیں تو کسی ایسی جگہ سے رشتہ آنے  کا انتظار کریں، جو آپ کے دینی جذبات کا احساس رکھیں، لیکن اگر یہ محسوس ہو کہ کسی دوسری جگہ سے رشتہ نہیں آئے گا یاجو آئے گا ،وہ دین داری کے پہلو سے اس سے براہوگا ور نہ گھر بیٹھے رہنے سے اوربڑے مفاسد کااندیشہ ہے تو اسی رشتے پر ہاں کرنے کی بھی گنجائش ہو گی ،تاہم رشتے کے بعد حتی المقدور آپ پر  دینی تعلیمات کا تحفظ ضروری ہوگا۔

قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: 

"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ." ﴿الأحزاب: ٥٩﴾

ترجمہ: ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی ازواجِ مطہرات، اپنی بیٹیوں اور مؤمن عورتوں سے فرمادیجیے کہ اپنے (چہروں) پر پردے لٹکالیا کریں۔‘‘

اسی طرح یہ حکم بھی چہرے کے پردے کی طرف متوجہ کرتا ہے: 

"وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ." ﴿الأحزاب: ٥٣﴾

ترجمہ: ’’جب ازواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے پوچھا کریں۔‘‘ 

 وفي سنن الترمذي :

"عن عبد الله : عن النبي صلى الله عليه و سلم قال المرأة عورة فإذا خرجت استشرفها الشيطان".

(ترجمہ)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے(یعنی اس کو مسلمانوں میں برائی پھیلانے کا ذریعہ بناتا ہے) ۔

(‌‌باب ما جاء في كراهية الدخول على المغيبات،3 / 468،ط:شركة مطبعة مصطفي الباني )

فتاوی شامی میں ہے:

'' فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولانجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة ''. 

(كتاب النكاح،ج:3،ص:72 ،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں