بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سچی توبہ سے گناہ کی معافی کا حکم


سوال

اگر کسی گناہ کے ہو جانے کی وجہ سے ذہنی تکلیف ہو تو کیا کرنا چاہیے،اگر انسان نے اس گناہ سے سچی توبہ بھی کرلی ہو،اپنی زندگی بدل لی ہو عبادت،ذکر،روزے اور تلاوت میں بھی اضافہ کر لیا ہو لیکن اس تکلیف میں کیا بول کے صبر کرے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تو نہیں ہے تو یہ کہنا کہ یہ آزمائش اللہ کی طرف سے ہے اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کوآ زماتا ہے یہ تو درست نہیں تو کیا کہے کیونکہ یہ سب حالات خود کے گناہوں کی وجہ سے پیش آئے ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں  اگر کسی شخص سے جو بھی گناہ سرزد ہوگیا  تھا اور اپنے گناہ پر ندامت  ، اور صدق دل  ساتھ توبہ کرچکا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ گناہ  کو معاف فرمائیں گے، اب اسے چاہیے کہ آئندہ ان گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرے،اور کسی متبعِ سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کرے اور جتنا ہوسکے اپنی نشست وبرخاست نیک لوگوں کے ساتھ رکھے، عبادات و طاعات میں اہتمام کے ساتھ مشغول رہے، حسبِ توفیق صدقہ بھی ادا کرتارہےاور  یہ  بات بھی یاد رہے  کہ  دین اسلام میں مایوسی بالکل نہیں ہے، انسان خطا کا پتلا ہے، گناہ انسان کی فطرت میں داخل ہے، لیکن بہترین ہے وہ شخص جو گناہ کرکے اس پر قائم نہ رہے، بلکہ فوراً توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے،لہذا گناہ پر پشیمانی حیاتِ ایمانی کی علامت ہے، لیکن اس کو  سوچتے رہنا  کہ مجھ  سے یہ گناہ ہوا تھا  تو اس سے عبادات میں بھی خلل آئے گا اور مایو سی پیدا ہو جائے گی ، لہذا جب مذکورہ شخص نے  سچے دل سے معافی مانگ لی اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کر لیا  تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی توبہ قبول فرما کر اس  کو معاف فرما دیتے ہیں۔ بلکہ توبہ کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں توبہ  کے بہت فضائل وارد ہوئے ہیں:

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ بواسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گناہ گار بندوں سے ارشاد فرماتے ہیں:

’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ [الزمر:53]

ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجیے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے (کفر و شرک کرکے) اپنے اوپر زیادتیاں کی ہیں کہ تم اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو، بالیقین اللہ تعالیٰ تمام (گزشتہ) گناہوں کو معاف فرمائے گا، واقع وہ بڑا بخشنے والا، بڑی رحمت کرنے والا ہے۔‘‘ (بیان القرآن)

توبہ کرکے بندہ اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب بن جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَ یُحِبُّ المُتَطَهِّرِینَ‘‘ [البقرة:222]

ترجمہ: ’’یقینًا اللہ تعالیٰ محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنے والوں سے۔‘‘ (بیان القرآن)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كلُّ بني آدم خَطَّاءٌ، وخيرُ الخَطَّائِينَ التوابون».

’’ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک) بہترین خطاکار وہ ہیں جو کثرت سے توبہ کرنے والے ہوں۔‘‘

(کتاب الزھد،باب الذکر التوبۃ،1420/2،داراحیاء الکتاب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

سنن ابن ماجہ میں ہے :

"عن أبي عبيدة بن عبد الله عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم -: التائب من الذنب كمن لا ذنب له"

(کتا ب الزہد، باب ذكر التوبةص320،ج5،ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ :’’گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘ 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں