بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیبل آپریٹر والوں کے تاروں کو ان کی اجازت کے بغیر استعمال کرنے کاحکم


سوال

کیبل آپریٹر والے مختلف مقامات پر اپنا تار جو تقریباً سو گز یا دوسو گز کا ہوتا ہے، وہ بچاتے ہیں، ان کا طریقہ یہ ہوتاہے، کہ رات کے کسی پہر آکر کے الیکٹرک کے کھمبوں سے اپنا تار باندھ دیتے ہیں، اور کسی کو اس بارے میں خبر نہیں ہوتی، کے الیکٹر ک والوں کو جب ہفتہ دس دن میں یا جب بھی آڈر ملتا ہے ، تو وہ آکر کیبل آپریٹر والوں کا تار کاٹ کر پھینک دیتے ہیں، جو شہر کےمختلف جگہوں میں یوں ہی پڑے رہتے ہیں، اب نہ ان کے اصل مالکان (کیبل آپریٹر) والے اس تار کو اٹھانے آتے ہیں ، اور نہ ہی وہ کےالیکٹرک والوں کے کسی کام آتاہے، چونکہ وہ تار بہت مضبوط ہوتاہے، اسی لیے عام لوگ اس تار کو اٹھا کر اپنے گھروں کو لے جاتے ہیں، اور مختلف چیزوں کےلیے استعمال کرتےہیں۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ آیا اس تار کا اٹھانا اور عام لوگوں کا اس تار کو اپنی ذاتی استعمال میں لانا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ راستہ میں پڑی ہوئی چیز’’لقطہ ‘‘ کے حکم میں ہے ، اور کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ وہ چیز یا تو قیمتی ہوگی یا قیمتی نہیں ہوگی،  قیمتی نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عرفاً اس کے مالک کا خاص  اسے ڈھونڈنے کے لیے آنا متوقع نہیں ہے۔ پھر جو چیز قیمتی ہوگی، اس کی تین صورتیں ہیں:

اگر اس چیز کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اس نیت سے اٹھایا ہو کہ اصل مالک تک پہنچائے تو یہ مستحب ہے۔

اگر اس کے ضائع ہونے کا خدشہ نہ ہو ، پھر مالک تک پہچانے کے لیے اٹھایا ہو تو یہ مباح ہے۔

اگر اپنے استعمال کے لیے اٹھایا ہو تو یہ حرام ہے۔

اور جو چیز اٹھا لی، پھر اسے مالک تک پہنچانے کے لیے اس کی حتی الوسع تشہیر کرنا لازم ہے یہاں تک کہ غالب گمان ہوجائے کہ اب اس کے مالک تک نہیں پہنچ سکتا۔ اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو محفوظ  رکھے،  تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے۔ اور  (حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے تو) یہ صورت بھی جائز ہے کہ مالک ہی کی طرف سے مذکورہ رقم/  چیز کسی  فقیر کو صدقہ کردے، اور اگر خود زکاۃ کا مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتاہے۔البتہ صدقہ کرنے یاخود استعمال کرنے کے بعد مالک آجاتاہے تواسے اپنی رقم/  چیز کے مطالبے کا  اختیار حاصل ہوگا۔ 

اور اگر قیمتی چیز نہ ہو تو بغیر تشہیر کے بھی صدقہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اور اگر خود مستحقِ زکات ہو تو استعمال کرنے کی بھی گنجائش ہے۔ 

 صورتِ  مسئولہ میں کیبل آپریٹر والوں کے تار جو باہر راستوں میں کے الیکٹرک والے پھینک دیتے ہیں،ا ور وہ کافی مقدار میں بھی ہوتا ہے، جس سے اس کا قیمتی ہونا معلوم ہوتا ہے؛ اسی لیے یہ تار بھی قیمتی اشیاء میں داخل ہونے کی وجہ سے اٹھانے والے کےلیے اپنے استعمال کی نیت سے اٹھانا حرام ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فصل: وأما بيان أحوالها منها في الأصل حالان: حال ما قبل الأخذ، وحال ما بعده أما قبل الأخذ: فلها أحوال مختلفة قد يكون مندوب الأخذ، وقد يكون مباح الأخذ، وقد يكون حرام الأخذ أما حالة الندب: فهو أن يخاف عليها الضيعة لو تركها فأخذها لصاحبها أفضل من تركها؛ لأنه إذا خاف عليها الضيعة كان أخذها لصاحبها إحياء لمال المسلم معنى فكان مستحبًّا -والله تعالى أعلم- وأما حالة الإباحة: فهو أن لايخاف عليها الضيعة فيأخذها لصاحبها، وهذا عندنا.

وقال الشافعي - رحمه الله - إذا خاف عليها يجب أخذها وإن لم يخف يستحب أخذها، وزعم أن الترك عند خوف الضيعة يكون تضييعًا لها و التضييع حرام فكان الأخذ واجبًا، وهذا غير سديد؛ لأن الترك لا يكون تضييعا بل هو امتناع من حفظ غير ملزم والامتناع من حفظ غير ملزم لا يكون تضييعا كالامتناع عن قبول الوديعة.

وأما حالة الحرمة: فهو أن يأخذها لنفسه لا لصاحبها."

(‌‌كتاب اللقطة، فصل في بيان أحوال اللقطة، ج:6، ص:200، ط:دار الكتب العلمية)

 ملتقى الأبحر میں ہے:

"وللملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرا وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء وإن كانت حقيرة كالنوى وقشور الرمان والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف وللمالك أخذها ولا يجب دفع اللقطة إلى مدعيها إلا ببينة ويحل إن بين علامتها من غير جبر."

(كتاب اللقطة، ج:1، ص:529، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں