بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موم بتی جلانے کا حکم


سوال

حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر موم بتیاں جلا نے سے منع فرمایا ہے، کیا اور موقعوں پر یہ کام کرنا درست ہے؟

جواب

قبروں پر موم بتی جلانے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ  اس میں بغیر ضرورت کے مال ضائع کرنا، قبروں کی مساجد کی طرح تعظیم کرنا (کیوں کہ مساجد میں روشنی کے لیے چراغ جلائے جاتے تھے)، قبر کے قریب ایسی چیز (آگ) رکھنا  جس سے جہنم میں عذاب ہوگا وغیرہ، جیسے مفاسد پائے جاتے ہیں۔ البتہ اگر کہیں دینی یا دنیاوی فائدہ (مثلاً  روشنی کے لیے یا روشنی میں تلاوت کے لیے یا اس کے علاوہ کوئی فائدہ) ملحوظ ہو تو اس کی اجازت ہوگی۔ اس کے علاوہ بلاضروررت  یا غیروں کی مشابہت میں مثلًا سالگرہ مناتے ہوئے، یا کسی کی یاد میں موم بتیاں جلانا جائز نہیں ہے، بلکہ ان میں سے بعض مواقع پر گناہ کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔

فيض القدير (5 / 274):

"(والسرج) لأنه تضييع للمال بلا فائدة وظاهره تحريم إيقاده على القبور لأنه تشبيه بالمساجد التي ينور فيها للصلاة ولأن فيه تقريب النار من الميت وقد ورد النهي عنه في أبي داود وغيره بل نهى أبو موسى الأشعري عن البخور عند الميت نعم إن كان الإيقاد للتنوير على الحاضر لنحو قراءة واستغفار للموتى فلا بأس."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203200931

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں