بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بيوه کا شوہر کے فلیٹ اپنے نام کر کے بیٹے اور بہو کو گھر سے نکال دینا


سوال

 میں  اپنی والدہ  اور ایک بہن کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتا ہوں ، دوسری بہن شادی شدہ ہے، الحمد اللہ سے میں شادی شدہ ہوں ،میری شادی دسمبر 2021 میں ہوئی ہے، یہ فلیٹ میرے والد صاحب نے 1998 میں خریدا تھا، خریدنے کے بعد میرے والد صاحب باہر ملک سعودی عرب چلے گئے تھے، خریدتے وقت اس فلیٹ پر Loan تھا جس کو میرے والد صاحب قسطوں کی صورت میں ادا کر رہے تھے، لیکن اسی دوران 2001 میں میرے والد صاحب کا سعودیہ میں انتقال ہو گیا، انتقال کے بعد میرے والد صاحب کے پیسے سے میری والدہ نے فلیٹ کے Loan کی بقیہ رقم ادا کر کے  فلیٹ اپنے نام پر ٹرانسفر کر لیا۔

اپنی شادی کے بعد میں نے ہر ممکن حد تک عدل و انصاف سے کام لیا، بلکہ ایک وقت کو میں بیوی کو نظر انداز کر کے اپنی ماں اور بہن کو فوقیت دیتا تھا ،لیکن اس سب کے باوجود میری والدہ کوانتہائی چھوٹی چھوٹی باتوں پر مجھ سے اور میری بیوی سے مسئلے شروع ہو گئے، اور میری والدہ مجھے بات بات پر دھمکی دینا شروع ہو گئیں کہ یہ فلیٹ میرا ہے، میرے نام پر ہے، توں اور تیری بیوی نکل جا، اس گھر سے اور اپنابندو بست کہیں اور کر ۔

ابھی مورخہ 16 اکتوبر کو میری والدہ نے میرے لئے گھر کا دروازہ نہیں کھولا اور مجھے گھر سے باہر نکال دیا ہے، اب میرے اور بیوی کے پاس رہنے کے لئے کوئی مستقل اور ٹھکانہ نہیں ہے، اور ہم دونوں در بدر ہو گئے ہیں، میری بیوی اپنے میکے میں ہیں، اور میں اپنے عزیز کے گھر پر ہوں فی الحال، امی نے مجھے اس لئے گھر سے نکالا ہے کیوں کہ مجھے گھر سے نکال کر میری والدہ مجھے میرے شرعی حق سے محروم کرنا چاہتی ہیں، اور میری جگہ اپنے داماد کو اس گھر میں رکھنا، اور میرا شرعی حق اپنے داماد کو دینا چاہتی ہیں، کیوں کہ میری چھوٹی بہن کے سسرال میں معاملات کافی پیچیدہ چل رہے ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں میری رہنمائی کی جائے کہ کیا میری والدہ کا مجھے یوں خالی ہاتھ گھر سے نکالنے کا عمل جائز ہے؟ میری والدہ میرا کمرہ اور میرے شرعی حق سے مجھے محروم کر کے اپنے داماد کو دینا چاہتی ہیں، کیا میری والدہ  کا ایسا کرنا جائز ہے؟

میرے پاس کیا آپشن ہے کہ میں اس مشکل وقت میں کیا کروں ؟  کیا میں اپنے مرحوم والد کے فلیٹ میں شرعی حق کا تقاضا کر سکتا ہوں؟ اور اگر میں نے تقاضا کیا تو مجھے میر احق پورا ملے گا جتنا اسلام میں بیٹے کا حصہ ہے یا جتنی میری والدہ کی مرضی ہوگی وہ اتنا دیں گی؟ کیونکہ یہ فلیٹ میرے والد صاحب کا خریدا ہوا ہے، جو کہ اُن کے انتقال کے بعد میری والدہ نے اپنے نام پر ٹرانسفر کرایا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں میری رہنمائی کریں اور مجھے میرے ساتھ ہونے والے ظلم اور میرے شرعی حق کے حوالہ سے ایک جامع فتوی جاری کریں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر حقیقتاً وہ فلیٹ والد مرحوم کا ہے، اور والد کے انتقال کے بعد والدہ نے اسے اپنے نام کر لیا ہے تو اِس سے وہ فلیٹ والدہ کی ملکیت نہیں ہوگا، بلکہ والد کا ترکہ شمار ہوگا، اس کو والد کے شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے اعتبار سے تقسیم کرنا ضروری ہے، اور سائل بیٹے کو چاہیے کہ ادب و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جس سے والدہ کی دل آزاری اور بے ادبی نہ ہو والدہ سے اپنے حصے کا مطالبہ کرے، سائل والد کے فلیٹ میں اپنے پورےشرعی  حصے کا حقدار ہے۔ 

والدہ کے لیے جائزنہیں کہ وہ بیٹے کو اس كے  والدكی  ميراث کے شرعی حصے سےاس بنیاد پر  محروم کرے، کہ کاغذات  انہوں نے اپنے نام پر کروا لیے، اب بھی یہ والد کا ترکہ ہے، بلکہ اس کو والد کی میراث کا اس کا شرعی حصہ اس کو دے، کسی وارث کو میراث سے محروم کرنے کی تدبیر اختیار کرنا سخت گناہ کا کام ہے اور اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:" جس نے اپنے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالی اسے جنت کی میراث سے محروم فرمائیں گے"۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."

(کتاب الوصایا،ج:2،ص:926،ط:المکتب الاسلامی)

"السنن الكبرى للبيهقي"میں ہے:

"ويروى عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل أحد أحق ‌بماله ‌من ‌والده وولده والناس أجمعين ".

(كتاب النفقات، باب نفقة الأبوين، ج:7، ص:790، رقم: 15753، ط: دار الكتب العلمية)

تکملة رد المحتار  لمحمد علاء الدین   میں ہے: 

"الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط ... الخ."

(کتاب الدعوی، باب التحالف، فصل في دفع الدعاوی، ج:8، ص:116، ط: دار الفكر بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100738

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں