بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بے نمازی ہونے کی وجہ سے منگنی توڑنا


سوال

میری ماموں کے گھر منگنی ہوئی تھی 3ماہ پہلے میں نے یہ رشتہ دین داری کی وجہ سے قبول کیا تھا لیکن میں دوسرے شہر گیا ماموں کے گھر میں نے دیکھا جس لڑکی سے میری منگنی ہوئی ہے وہ نماز نہیں پڑھتی اور شکل بھی مطلب مجھے لڑکی پسند نہیں آئی اور میں اکیلا ہوں والدین فوت ہوچکے ہیں اس وجہ سے رشتہ داروں نے میری منگنی کروائی تھی ماموں کے گھر ،رشتہ ہونے سے میری خالہ بھی بہت ناراض ہیں ان کی بھی بیٹی ہے وہ پہلے اپنی بیٹی کا رشتہ دینا چاہتی تھی اب وہ ہمارے ساتھ کسی قسم کا رابطہ نہیں رکھتی ،میں اب اپنے خاندان کے باہر سے راشتہ کرنا چاہتا ہوں اور میرے مالی حالات بھی کچھ اچھی نہیں ہے خاندان والے لالچ کرتے ہیں، ایک ہی لڑکا ہے بھائی بہن کوئی نہیں ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر رشتہ کی بنیاد دینداری تھی اور واقعۃ لڑکی نماز وغیرہ کی پابندنہیں ہے،مزید دیگر وجوہات کی بنیاد پر سائل کو یہ رشتہ پسند نہیں ہے، جس کی وجہ سے سائل کو لگتا ہے کہ اس کی زندگی اس لڑکی کے ساتھ  شریعت کے مطابق اور خوشگوار نہیں گزرے گی تو سائل کے لیےاس  منگنی کو توڑنے کی اجازت ہے ،باقی رشتہ کے انتخاب میں سائل جہاں چاہے نکاح کرسکتا ہے،خالہ یا خاندان کے دیگر افراد کا سائل پر اپنی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے پر جبر کرنا شرعادرست نہیں ہے۔

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر میں ہے:

"يكره معاشرة من لا يصلي ولو كانت زوجته،  إلا إذا كان الزوج لا يصلي لم يكره للمرأة معاشرته.كذا في نفقات الظهيرية. ‌الخلف ‌في ‌الوعد حرام كذا في أضحية الذخيرة.وفي القنية وعده أن يأتيه فلم يأته لا يأثم.

  قوله: يكره معاشرة من لا يصلي ولو كانت زوجته.في المحيط البرهاني رجل له امرأة لا تصلي يطلقها حتى لا يصحب امرأة لا تصلي، فإن لم يكن له ما يعطي مهرها فالأولى له أن لا يطلقها وقال الإمام أبو حفص الكبير: لأن ألقى الله تعالى، ومهرها في عنقي أحب إلي من أن أطأ امرأة لا تصلي (انتهى) .... قوله: وفي القنية وعده أن يأتيه لا يأثم.قال بعض الفضلاء فإن قيل: ما وجه التوفيق بين هذين القولين فإن الحرام يأثم بفعله وقد صرح في القنية بنفي الإثم، قلت: يحمل الأول على ما إذا وعد وفي نيته الخلف فيحرم؛ لأنه من صفات المنافقين والثاني على ما إذا نوى الوفاء وعرض مانع (انتهى)."

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج3،ص236،ط؛دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502102327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں