بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع کے ختم کرنے کی صورت میں مشتری کا بیعانہ میں اضافہ کا مطالبہ کرنا


سوال

 میں نے ایک شخص کو اپنا مکان  ایک کروڑ ساٹھ لاکھ روپے میں فروخت کیا ،اور طےیہ ہوا کہ 45لاکھ روپے ایک ماہ کے اندر خریدار ادا کرے گا اور بقایا ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے کم و بیش دو سے سواد و سال میں ادا کرے گا، جو مدت مارچ 2023 میں پوری ہوتی ہے، خریدار نے بیس لاکھ روپے کیش ادا کیے اور بقایا پچیس لاکھ توڑ توڑ کرتقریباً پانچ ماہ میں ادا کیے جس میں سے ڈیڑھ لاکھ روپے کم تھے یعنی کہ کل رقم جو مجھے ادا کی گئی وہ ساڑھے تینتالیس لاکھ کی ادا کی گئی،اس دوران مارچ 2022 میں میری پرائیویٹ  کمپنی کی جانب سے میرا تبادلہ کراچی سے اسلام آباد ہو گیا، میں نے خریدار سے بات کی کہ اگر آپ کو مکان کرایہ پر درکار ہے تو آپ لے لیں تو آپ مارچ 2023 میں جب بقایہ ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے ادا کریں گے تو گھر کا قبضہ آپ کو دے دوں گا، اس حوالہ سے ایک کرایہ نامہ تحریر ہوا جس کے مطابق پچاس ہزار روپے ایڈوانس طے پایا اور چالیس ہزار گھر کا کرایہ طے ہوا خریدار نے مجھے 14 مارچ 2022 کو ایڈوانس کی رقم پچاس ہزار ادا کی اور ایڈوانس کرائے کے حوالہ سے کہا کہ آپ اسلام آباد پہنچے میں آپ کو بھیجتا ہوں۔

میں مارچ 2022 کو اپنی فیملی سمیت اسلام آباد روانہ ہو گیا اور اس تاریخ کو میں نے گھر کی چابی خریدار کو دے دی، طے یہ پایا کہ کرایہ یکم اپریل 2022 سے شروع ہو گا اور مارچ کے بقایادنوں کا کوئی کرایہ نہیں لیا جائے گا،چونکہ میں نے اپنی ساری زندگی کراچی میں گزاری تھی، اس لئے میر اول اسلام آباد میں بالکل نہیں لگا، اس حوالے سے میں نے اپریل کے مہینے میں کئی بار خریدار سے رابطہ کیا کہ آپ اپنی رقم ساڑھے تینتالیس لاکھ واپس لے لیں اور میرا گھر مجھے لوٹا دیں، ایک دفعہ میں نے یہ بھی پیشکش کی کہ آپ مجھ سے ساڑھے چھ لاکھ کی رقم اوپر لے لیں (یعنی کل پچاس لاکھ ) اور گھر لوٹا دیں، لیکن خریدار اور اس کے والد نے صاف منع کر دیا، جون 2022 کے وسط میں خریدار نے مجھے فون کیا اور کہا کہ میر اکار و بار تباہ ہو گیا ہے ،میں آپ کو بقایا رقم  مارچ 2023 میں نہیں دے پاؤں گا، اس لیے آپ گھر واپس لے لیں، مزید انہوں نے یہ کہا کہ ایک پارٹی مجھے ایک کروڑ اسی لاکھ روپے کی آفر دے رہی ہے،  لیکن میں نے سوچا کہ  آپ کے ساتھ اتنا وقت ایک ساتھ اسی محلہ میں  گزارا ہے تو ان کا حق بنتا ہے، میں نے جواباً کہا کہ آپ یہ مکان شرعاً کسی اور کو کیسے فروخت کر سکتے ہیں؛ کیوں کہ نا آپ کے پاس مکان کا قبضہ ہے اور نہ ہی مکان کی مکمل قیمت آپ نے ادا کی ہے،خریدار نے کہا کہ میں بالکل فروخت کر سکتا ہوں، میں نے اس بات کی نفی کی، خریدار نے مزید کہا کہ آپ مجھے ساڑھے چھ لاکھ اوپر ادا کریں (کل پچاس لاکھ ) جس کے جواب میں  میں نے حیرانگی کے ساتھ پوچھا کہ بھائی اضافی رقم آپ کسی حوالہ سے مانگ رہے ہو آپ نےتو ساڑھے تینتالیس لاکھ روپے دیے ہیں، اور میرے نزدیک اوپر والی رقم سود کی مد میں آتی ہے۔

طے یہ پایا کہ میں واپس کراچی آتا ہوں اور پہلے ساڑھے تینتالیس لاکھ کی رقم ادا کروں گا اور اوپر والی رقم کے حوالہ سے ہم مفتی صاحبان سے راہ نمائی حاصل کریں گے، اس بات پر خریدار رضا مند ہو گیا، میں اپنی فیملی سمیت 23 جولائی 2022 کو واپس کراچی آگیا اور اپنے مکان میں رہنے لگا، اب تک میں خریدار کو چالیس لاکھ ادا کر چکا ہوں اور ساڑھے تین لاکھ دینے ہیں اور یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اسلام آباد میں چار ماہ کے دوران میں نے خریدار کو کئی بار کرائے کے حوالے سے فون کیا لیکن مجھے کرائے کی مد میں کوئی رقم ادا نہیں کی گئی، تو  اس دوران کرایہ کی کل رقم ایک لا کھ ساٹھ ہزار بنتی ہے اور ایڈوانس کے پچاس ہزار نکال کر کل رقم ایک لاکھ دس ہزار بھی خریدار نے مجھے دینے ہیں یہ رقم میں بقایا ساڑھے تین لاکھ کی رقم سے کاٹ لوں گا۔

اب سوال یہ ہے کہ خریدار  کےلیےیہ اضافی رقم صول کرنا شرعاًجائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل اور خریدار کے درمیان مارچ2022ءمیں خریداری کا معاملہ ہوا تو ایجاب وقبول   سےہی بیع تام ہو چکی تھی،اگرچہ سائل نےپوری قیمت وصول نہیں کی تھی،مکان کے ساتھ خریدارکا اور قیمت کے ساتھ سائل کا حق متعلق ہوچکا تھا، قیمت موصول ہونے تک بائع (سائل)کے لیے مکان کرائے پر دے کر  کرایہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے،لہذا سائل نے کرایہ کی مد میں جوپچاس ہزار روپے ایڈوانس وصول کیےوہ خریدار کو واپس کرنا لازم ہے،اور باقی کرایہ بھی وصول کرنا جائز نہیں ،پھر سائل  اور خریدار اپنی رضامندی سے اپنے درمیان کیے گئے خریداری کے معاملے کو ختم کرنا چاہتےہیں تو جتنی رقم سائل نے وصول کرلی ہے اتنی رقم ہی واپس کرنا سائل کے ذمہ لازم ہے،خریدار کی طرف سےاضافی رقم کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

العناية شرح الهداية "میں ہے:

"(البيع ينعقد بالإيجاب والقبول) الانعقاد هاهنا تعلق كلام أحد العاقدين بالآخر شرعا على وجه يظهر أثره في المحل. والإيجاب الإثبات."

(کتاب البیوع، 6/ 248، ط: دار الفکر)

درر  الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"‌‌‌‌(المادة 374) البيع النافذ قد يفيد الحكم في الحال.أي بمجرد وقوع العقد يفيد البيع النافذ الذي هو ملكية البائع للثمن والمشتري للمبيع وتصرف كل منهما فيما في يده ولا حاجة في ذلك إلى شيء آخر

(المادة 375) إذا كان البيع لازما فليس لأحد المتبايعين الرجوع عنه.أي ليس لأحد المتبايعين أو ورثته في البيع النافذ اللازم أن يرجع عنه بدون رضاء الآخر بوجه من الوجوه.أما الطرفان؛ فلهما بالتراضي أن يتقايلا البيع كما قد بين في الفصل الخامس للباب الأول."

(الکتاب الاول البیوع،الباب السابع في بيان أنواع البيع وأحكامه،1 /401،ط؛دار الجیل)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي حميد الساعدي رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه و ذالك لما حرم الله مال المسلم على المسلم."

(مسند أحمد ابن حنبل ،18/39،ط: مؤسسة الرسالة)

فتح القدیر میں ہے:

"لأن أحد المتعاقدین لا ینفرد بالفسخ کمالا ینفرد بالعقد.

(يصدقه لأن أحد المتعاقدين لا ينفرد ‌بالفسخ) فإنكاره إن كان فسخا من جهته لا يحصل به الإنفساخ."

 ( کتاب القضاء، باب التحکیم،7 /334،ط: دارالفکر لبنان)

وفیہ ایضاً:

"الإقالة جائزۃ فی البیع بمثل الثمن الأوّل فإن شرط أکثر منه أو أقل فالشرط باطل ویرد مثل الثمن الأول."

(کتاب البیوع ،باب الاقالۃ، 6 /486 ،ط: دارالفکر لبنان)

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"فعلى هذا إذا تقايل المتبايعان البيع بعد قبض ثمن المبيع فيجب رد مثل الثمن أو مقداره الذي اتفق عليه حين العقد.

ولو كان المقبوض أجود أو أدنى من ذلك ولا فائدة في أن يشترط حين الإقالة أن يدفع الثمن من جنس آخر أو ينقص للندامة أو لأسباب أخرى أو أن يزاد الثمن أو يرد بدل غيره أو يؤجل كما أن السكوت حين الإقالة عن الثمن لا يضر شيئا يعني أن كل ما يشترط في الإقالة من ذلك فهو باطل والإقالة صحيحة؛ لأن حقيقة الفسخ رفع الأول بحيث يكون كأن لم يكن فعلى ذلك تثبت الحال الأولى وثبوت هذه الحال يقتضي رجوع عين الثمن لمالكه الأول وعدم دخوله في ملك البائع رد المحتار.

مثال ذلك: إذا باع رجل من آخر مالا بخمسين ريالا وبعد أن قبض الثمن تقايلا البيع واتفقا على أن يدفع البائع للمشتري خمسة وأربعين ريالا عوضا عن الثمن الذي قبضه فالإقالة صحيحة وعلى البائع أن يرد الخمسين ريالا للمشتري دون زيادة ولا نقصان."

(البيوع،الفصل الرابع فی اقالۃ البيع،حكم الاقالۃ،1 /172،ط:دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں