بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بے ہوشی کے دورے پڑنے والے شخص کا بطور علاج بلی کا گوشت استعمال کرنا


سوال

ہمارے رابطہ میں ایک شخص ہے، جس کو گاہے بگاہے دورہ پڑتا رہتا ہے، دورہ پڑنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ راہ چلتے کبھی تو بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے  اور کبھی ہاتھ پیر کانپنے اور چھٹپٹانے لگتا ہے،ایسی صورت میں علاج کی غرض سے ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس جانا ہوا ،تو انہوں نے علاج کے طور پر یہ مشورہ دیا کہ اگر آپ بلی کے گوشت کے  دو تین ٹکڑے  کھائیں  گے، تو آپ کو یقیناً صحت یابی حاصل ہو جائے گی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت حال میں بطور علاج کے بلی کا گوشت کھانا (جوکہ حرام ہے ) درست ہے ؟ اور کیا شریعت میں اس کا جواز ثابت ہے ؟  نیز ایسی بیماری کو دور کرنے کے لیے اگر شریعت میں کوئی وظیفہ یا عمل ثابت ہو تو وہ بھی بتائیں!

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرنا بھی حرام ہے، الا یہ کہ بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان  ماہر دین دار طبیب یہ کہہ دے کہ   اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہوجائے کہ  شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور کوئی متبادل موجود نہیں ہےتو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے، ورنہ نہیں۔

لہذا  صورتِ  مسئولہ  میں  بے ہوشی  کے دورہ پڑنے کے علاج کے لیے متبادل حلال دوا موجود ہونے کی صورت میں بلی کے گوشت کا کھانا جائز نہیں ہے  اور اگر کوئی حلال دوا نہیں ہے تو مجبوراً گنجائش ہوگی۔

نیز مریض درج ذیل دعا کا خوب اہتمام کرے :

"اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْبَرَصِ، وَالْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَيِّئِ الأَسْقَامِ".

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله: ( اختلف في التداوي بالمحرم ) ففي النهاية عن الذخيرة: يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر، وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم كما رواه البخاري: أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس، فقال: لو عرف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء وبالبول أيضًا إن علم فيه شفاء لا بأس به لكن لم ينقل، وهذا لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع ا هـ من البحر . وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة واشتراط صاحب النهاية العلم لاينافيه اشتراط مَن بعده الشفاء، ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله: لا للتداوي محمول على المظنون، وإلا فجوازه باليقين اتفاق كما صرح به في المصفى اهـ 

 أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدل لقول الإمام لكن قد علمت: أن قول الأطباء لا يحصل به العلم، و الظاهر: أن التجربة يحصل به العلم،  والظاهر: أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم ۔ تأمل.

قوله: ( وظاهر المذهب المنع ) محمول على المظنون كما علمته، قوله ( لكن نقل المصنف الخ ) مفعول نقل قوله وقيل يرخص الخ والاستدراك على إطلاق المنح وإذا قيد بالمظنون فلا استدراك،ونص ما في الحاوي القدسي إذا سال الدم من أنف إنسان ولا ينقطع حتى يخشى عليه الموت وقد علم أنه لو كتب فاتحة الكتاب أو الإخلاص بذلك الدم على جبهته ينقطع فلايرخص له ما فيه وقيل يرخص كما رخص في شرب الخمر للعطشان وأكل الميتة في المخمصة وهو الفتوى ا هـ 

 قوله: ( ولم يعلم دواء آخر ) هذا المصرح به في عبارة النهاية كما مر وليس في عبارة الحاوي إلا أنه يفاد في قوله كما رخص الخ لأن حل الخمر والميتة حيث لم يوجد ما يقوم مقامهما أفاده ط.قال: ونقل الحموي: أن لحم الخنزير لايجوز التداوي به وإن تعين والله تعالى أعلم."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الطهارة، باب المياه، مطلب  في التداوي بالمحرم (1/ 210)،ط. سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144309101261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں