بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی میکے سے آجائے تو میں اس کی پوجاکروں گا،شرک کروں گا کہنے کاحکم


سوال

 دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ میاں بیوی میں کسی بات پر اَن بن ہوئی  اور میاں اپنی بیوی کو میکے چھوڑکر آ گیا، بعد میں شوہر نے 10 افراد کی مجلس میں غصے اور جذبات میں آکر یہ کہہ دیا کہ اگر وہ آجائے (بیوی) تو اس کی پوجا کروں گا، میں شرک کر لوں گا،مجلس میں ایک شخص نے ان سے کہا کہ اس طرح کے الفاظ مت بولیں، لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے دوبارہ کہا کہ میں شرک کر لوں گا، اس واقعے کے دو دن بعد جب شوہر سےاس کے ان الفاظ کی وضاحت طلب کی گئی تو اس نے کہا: ”پوجا اور شرک کر لوں گا،یہ صرف میرے الفاظ تھے، پوجا کا مطلب پرستی ہے نہ کہ سجدہ وغیرہ، اس کا معنی مراد یہ تھا کہ بیوی کا اب میں بہت زیادہ خیال رکھوں گا“ اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے،یہ الفاظ جو شوہر نے ادا کیے کفریہ تو نہیں؟ اور ان کے ادا کرنے کے بعد تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی ضرورت تو نہیں؟ برائے مہربانی شریعت کی روشنی جواب مرحمت فرمائیں!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ شخص کا یہ کہنا کہ”  وہ (بیوی ) آجائے تو  اس کی پوجا کروں گا،میں شرک کروں گا“مذکورہ  الفاظ  سے یہ شخص دائرہ  اسلام سے خارج نہیں ہو ااور نہ  ہی ان الفاظ سے اس شخص کے نکاح پر کوئی اثر پڑاہے ،لہذا تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے ، مذکورہ الفاظ کفریہ تو نہیں ہیں، لیکن کسی مسلمان کی شان کے مناسب بھی نہیں ہیں  اس لیے آئندہ ایسے الفاظ کہنے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

الدرالمختار میں ہے:

"(و) اعلم أنه (لا يفتى بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره خلاف، ولو) كان ذلك (رواية ضعيفة) كما حرره في البحر، وعزاه في الأشباه إلى الصغرى. وفي الدرر وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر وواحد يمنعه فعلى المفتي الميل لما يمنعه، ثم لو نيته ذلك فمسلم ۔"

( کتاب الجہاد ، باب المرتد4/229ط:سعید)

فتاوی خلیلہ میں ہے :

" اگر کسی کی زبان سے کلمہ کفر نکلے مگر وہ دل سے اس کا اعتقاد نہ رکھتاہو تو ایسے شخص پرردۃِ  حقیقیہ کا حکم نہ کیا جائے گا اور تما م احکام میں مرتدکے اس پر جاری نہ کیے جائیں گے،کیوں کہ  جب تک مواطاۃ  قلب باللسان نہ ہو   اور صدور  قصد واختیار صحیح سے نہ ہو اس وقت تک اس کو دیانۃً  وقضاءً  مرتد نہیں کہا جاسکتا ۔۔۔"

( کتاب الایمان والکفر 346ط:مکتبہ الشیخ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں