بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک بیوی سے حسنِ سلوک اور دوسری سے بے رغبتی برتنا


سوال

ایسے شوہر کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے کہ جس کا مکمل جھکاؤ  ایک بیوی کی جانب ہو، اس سے پیدا ہونے والی بیٹیوں کو بھی شہزادیوں کی طرح رکھتا ہو، جب کہ دوسری بیوی سے بے رغبت ہو اور اس کی اولاد کو بھی یتیموں کی طرح رکھتا ہو؟

جواب

سوال کے جواب  سے پہلے  شریعت کا یہ اصول مدنظر رہے کہ شریعتِ  مطہرہ  میں مرد کو بیک وقت چار شادیاں کرنے کی اجازت  ہے،جیساکہ  اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

﴿ وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتَامٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانِكُمْ ذٰلِكَ أَدْنٰى أَلَّا تَعُوْلُوْا ﴾(النساء:3)

ترجمہ: ”اور اگر تم کواس بات کا احتمال ہو کہ تم یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکوگے تو اورعورتوں سے جوتم کو پسند ہوں نکاح کرلو ، دو دوعورتوں سے اور تین تین عورتوں سے اور چارچار عورتوں سے، پس اگر تم کو احتمال اس کا ہو کہ عدل نہ رکھوگے تو پھر ایک ہی بی بی پر بس کرو یا جو لونڈی تمہاری ملک میں ہو وہی سہی، اس امرمذکور میں زیادتی نہ ہونے کی توقع قریب ترہے۔“

(بیان القرآن )

لیکن یہ آیت یہ بتلارہی ہے کہ یہ اجازت مطلقاً نہیں،  بلکہ  مرد کو  بیک وقت ایک سے زائد  چار تک شادیاں کرنے کی اجازت اس صورت میں جب وہ انصاف کر سکے، جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کے لیے جسمانی اور مالی طاقت رکھتا ہو اور اس میں بیویوں کے درمیان برابری کرنے کی اہلیت ہو، لہذا اگر کسی شخص میں جسمانی یا مالی طاقت نہیں یا اسے خوف ہے کہ وہ دوسری شادی کے بعد برابری نہ کرسکے گا تو اس کے لیے دوسری شادی کرنا جائز نہیں۔

نیز دو شادیوں کی صورت میں دونوں بیویوں میں برابری لازم ہے ، اور برابری کی تفصیل بھی فقہاء نے ذکر کی ہے  کہ    بیویوں کے درمیان رات گزارنے میں اور خرچہ ونان نفقہ دینے میں برابری کا معاملہ کرنا شوہر پر واجب ہے،  پہلی اور دوسری بیوی حقوق میں برابر ہیں، اور مساوات شب باشی (یعنی صرف رات گزارنے) میں واجب ہے، جماع میں برابری شرط نہیں  اور ممکن بھی نہیں، نیز رہائش میں بھی برابری اور  یک سانیت کا معاملہ کرنا شوہر پر لازم اور ضروری ہے، دونوں کو الگ الگ کمرہ دینا (جس میں رہائش کے علاوہ دیگر ضروریات، کچن، غسل خانہ اور بیت الخلا موجود ہو) لازم ہے، چھٹیوں کے ایام کی بھی تقسیم کرنی چاہیے، اور اگر ان چیزوں میں کسی ایک کے ساتھ جھکاؤ کا معاملہ کرے گا تو شوہر ظالم شمار ہوگا، اللہ کے یہاں اس کی پکڑ ہوگی۔

لہذا اگرکوئی شوہرواقعتًا ایک بیوی کی جانب مکمل میلان رکھتا ہے اور اس سے ہونے والی اولاد سے حسنِ سلوک کرتا ہے اور  دوسری بیوی سے بے رغبتی رکھتا ہو اور اس سے ہونے والی اولاد کا خیال نہ رکھتا ہو تو ایسا شخص اللہ کے ہاں مجرم ٹھہرے گا، رسول اللہ ﷺنے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من كانت له امرأتان، فمال إلى أحدهما جاء يوم القيامة وشقه مائل"۔

( سنن أبي داؤد 3 / 469)

ترجمہ:”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ کسی ایک کی جانب جھک جائے تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی ایک جانب فالج زدہ ہوگی“۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 201):

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207200489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں