بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے مشورہ کیا تھا/ بیوی سے مشورہ کرنے کا حکم


سوال

کیا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی بیویوں میں سے کسی سے کسی بات پر مشورہ لیا ہے ؟ کیا بیوی سے مشورہ لینا سنت ہے اور اگر سنت نہیں تو کیا غلط ہے ؟؟ تینوں سوالوں کے جوابات دیدیں تو بہتر ہے ۔

جواب

ایک طویل روایت میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر اپنی زوجہ مطہرہ حضرت امِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ لیاتھا، اور اس کو قبول بھی کیا اور عمل بھی کیا۔

نیزمشورہ اسلامی تعلیمات میں سے ایک اہم ترین سنت ہے، قرآن اور حدیث میں متعدد مواقع پر مشورے کی ترغیب دی گئی ہے، چاہے وہ مردوں سے کیا جائے یا کسی خاتون سے، لہذا اگر بیوی ہوشیار اور معاملہ شناس ہے تو اس  کے ساتھ بھی مشورہ کرنا چاہیے، اور اگر وہ مشورہ قابل عمل ہو تو عمل بھی کرنا چاہیے،اور اگر قابلِ عمل نہیں تو اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے، بیوی سے مشورہ لینا سنت نہیں ، جائز ہے، غلط نہیں بلکہ بہتر ہے۔

فتح الباري شرح صحیح البخاری لابن حجر میں ہے:

"قال: فلما فرغ من قضية الكتاب، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأصحابه: «قوموا فانحروا ثم احلقوا»، قال: فوالله ما قام منهم رجل حتى قال ذلك ثلاث مرات،فلما لم يقم منهم أحد دخل على أم سلمة، فذكر لها ما لقي من الناس، فقالت أم سلمة: يا نبي الله، أتحب ذلك، اخرج ثم لا تكلم أحدا منهم كلمة، حتى تنحر بدنك، وتدعو حالقك فيحلقك، فخرج فلم يكلم أحدا منهم حتى فعل ذلك نحر بدنه، ودعا حالقه فحلقه، فلما رأوا ذلك قاموا، فنحروا وجعل بعضهم يحلق بعضا حتى كاد بعضهم يقتل بعضا غما.

 فدخل على أم سلمة فقال هلك المسلمون أمرتهم أن يحلقوا وينحروا فلم يفعلوا قال فجلى الله عنهم يومئذ بأم سلمة قوله قالت أم سلمة يا نبي الله أتحب ذلك أخرج ثم لا تكلم أحدا منهم زاد بن إسحاق قالت أم سلمة يا رسول الله لا تكلمهم فإنهم قد دخلهم أمر عظيم مما أدخلت على نفسك من المشقة في أمر الصلح ورجوعهم بغير فتح ويحتمل أنها فهمت عن الصحابة أنه احتمل عندهم أن يكون النبي صلى الله عليه و سلم أمرهم بالتحلل أخذا بالرخصة في حقهم وأنه هو يستمر على الإحرام أخذا بالعزيمة في حق نفسه فأشارت عليه أن يتحلل لينتفي عنهم هذا الاحتمالوعرف النبي صلى الله عليه و سلم صواب ما أشارت به ففعله فلما رأى الصحابة ذلك بادروا إلى فعل ما أمرهم به إذ لم يبق بعد ذلك غاية تنتظر وفيه فضل المشورة وأن الفعل إذا انضم إلى القول كان أبلغ من القول المجرد وليس فيه أن الفعل مطلقا أبلغ من القول وجواز مشاورة المرأة الفاضلة وفضل أم سلمة ووفور عقلها حتى قال إمام الحرمين لا نعلم امرأة أشارت برأي فأصابت الا أم سلمة".

(قوله باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وكتابة الشروط، ج:5، ص:347، ط:دارالمعرفۃ)

كشف المشكل من حديث الصحيحين میں ہے:

"وأما مشاورة رسول الله صلى الله عليه وسلم أم سلمة وقبول قولها ففيه دليل على جواز العمل بمشاورة النساء".

(كشف المشكل من مسند المسور بن مخرمة، ج:4، ص:58، ط:دارالوطن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں